کیا ہم ملزمان کی غیر موجودگی میں اپیلوں کو میرٹ پر سن سکتے ہیں؟ جسٹس عامر فاروق

کیا ہم ملزمان کی غیر موجودگی میں اپیلوں کو میرٹ پر سن سکتے ہیں؟ جسٹس عامر فاروق


اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاناما ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، نائب صدر مریم نواز اور رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی دائر اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس عامر فاروق نے فریقین کے وکلا سے استفسار کیا ہے کہ کیا ہم ملزمان کی غیر موجودگی میں اپیلوں کو میرٹ پر سن سکتے ہیں؟

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد کے ڈویژن بینچ نے پاناما ریفرنس اپیلیں، جن میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، نائب صدر مریم نواز اور رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی دائر اپیلیں شامل ہیں، پر سماعت کی۔

مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر اپنے وکیل امجد پرویز کے ساتھ عدالت کے روبرو پیش ہوئے جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران لیگی قیادت اور کارکنان کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔

عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ نے دلائل شروع کیے کہ ہمارے پاس ہر قانون کے لیے فاونڈیشن ہونا چاہیے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دے کہ جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ عدالت میرٹ پر فیصلہ کرے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اس چیز کی تصدیق کرنا ضروری ہے کہ کیا ہم میرٹ پر اس کیس کو سن سکتے ہیں؟

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانون میں واضح ہے کہ اگر ملزم نہیں ہو تو میرٹ پر کیس نہیں سنا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے ایک آنکھ سے نواز شریف، اعظم نذیر اور امجد پرویز کو دیکھنا ہے اور اگر عدالت کے پاس دستاویزات موجود ہیں تو عدالت کو ایک آنکھ سے دیکھنا ہوگا۔

اعظم نذیر تارڑ نے نواز شریف کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ بھی دیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو فیصلے کو عرصہ گزرا مگر آج بھی ان کے نتائج پر باتیں ہورہی ہیں کیونکہ آئین اور قانون کی رو سے ایسا فیصلہ دیا جاسکتا ہے کہ ایک واضح ونڈو اوپن ہو۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کئی کیسز میں واضح فیصلے دیے ہیں۔

جس پر جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ انہوں نے میرٹ پر اپیل مسترد کرنے کی استدعا کی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر بات کروں گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس اگر ان کے علاوہ کسی اور کا ہوتا تو آج تک یاد نہ رکھا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی کیسز نہ صرف قانون کی کتابوں میں بلکہ سیاسی تاریخ میں بھی کندہ ہوتے ہیں اور ایسی مثالیں موجود ہیں کہ غیرموجودگی میں ہائیکورٹ نے اپیلیں سن لیں پھر سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیدیا۔

جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ ملزم کی غیرموجودگی میں ٹرائل بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نواز شریف کی غیر موجودگی میں عدالت اپیل کو خارج کرسکتی ہے کیونکہ دونوں فریقین کی جانب سے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو کرنے کا کہا تھا جس میں اپیل کے دو مقاصد ہیں ایک یہ کہ سزا ختم ہو اور دوسرا یہ کہ سزا برقرار رہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس کیس کو اگر اسی موقع پر روک دے تو ٹرائل کورٹ کا فیصلہ ادھر ہی رہے گا اور مجھے بھی احساس ہے کہ یہاں بہت سارے دیگر کیسز لگے ہیں مگر یہ بھی قومی سطح کا کیس ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ٹرائل ان کی موجودگی میں ہوا ہے تو اپیل بھی ان کی موجودگی میں سنی جائے اگر اپیل کا ابھی فیصلہ کرتے ہیں اور کل کو فیصلہ واپس ہوجائے تو پھر کیا ہوگا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر اب عدالت اس اپیل کو خارج کرتی ہے یا کس کو نہیں سنتے تو نہ کسی کا فائدہ ہوگا اور نہ نقصان، عدالت قانون کو دیکھ کر فیصلہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایسے بہت سارے کیسز میں ریلیف دیا گیا ہے جبکہ ہم نے لوگوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہماری عدالتیں بعض کیسز میں سورہی ہے جبکہ عام آدمی کو انصاف دینے، ان کو حق دلانے کے لیے عدالتیں بنائی گئی ہیں۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ’لیکن یہاں تو دو اور اپیلیں بھی زیر سماعت ہیں، اس کا کیا کرنا ہے؟

جسٹس عامر فاروق نے اعظم نذیر تارڑ سے پھر استفسار کیا کہ ان کیسز کو ہم میرٹ پر سن سکتے ہیں؟

اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ آپ ان کیسز میں فیصلہ کرسکتے ہیں مگر ملزم کے لیے سہولت کا رستہ ضرور ہو۔

انہوں نے کہا کہ تینوں ملزمان نے 342 کا بیان قلمبند کرا رکھا ہے، تینوں ملزمان کے وکلا نے اپنے دلائل دیے ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ اکرام اللہ کیس میں سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ جو حاضر ہوگا تو ہی فیصلہ کیا جائے گا۔

اس دوران عدالت نے اعظم نذیر تارڑ کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کا حوالہ دینے سے روک دیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ موجودہ نوعیت کے معاملات میں محفوظ راستہ ہی عدالتیں اختیار کرتی رہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریماکس دیے کہ نواز شریف کے 2 شریک ملزمان بھی اس عدالت میں موجود ہیں کیونکہ مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کو بھی انہی شواہد پر سزا ملی۔

جسسٹس عامر فاروق نے ریماکس دیے کہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر تو میرٹ پر اپنا کیس چلائیں گے ہی لیکن انہی شواہد پر میرٹ پر ان دونوں کی اپیلوں پر فیصلہ ہو جائے تو پھر کیا ہوگا؟

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نواز شریف واپس آکر اپنا کیس پھر بھی الگ چلا سکتے ہیں جبکہ عدالت خود چاہے تو کیپٹن (ر) صفدر اور مریم کی اپیلیں بھی فی الحال مؤخر کر دے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایک ملزم کے موجود نہ ہونے پر دوسروں کا معاملہ تو التوا میں نہیں رکھا جا سکتا۔

دوران سماعت جہانزیب بھروانہ نے کہا نوازشریف کا حق سماعت پہلے ہی ختم کیا جا چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے ہر پہلو کا جائزہ لے کر ہی ایسا کیا تھا اس لیے اب اس اسٹیج پر نواز شریف کی اپیل خارج ہی کی جائے۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ میرٹ پر آپ کو سن کر کریں یا ایسے ہی آپ کہہ کیا رہے ہیں؟

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شواہد میں بھی جائے بغیر اشتہاری ہونے پر اپیل خارج ہو سکتی ہے میں عدالت کے سامنے عدالتی حوالے بھی پیش کر دوں گا۔

نیب کی جانب سے مختلف عدالتی فیصلوں کی کاپیاں عدالت کو فراہم کی گئیں۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے استدعا کی کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا برقرار رکھی جائے۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کی سزا بڑھائی جائے جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بریت کے خلاف اپیل میں ابھی تک نوٹس نہیں ہوئے ہیں۔

جس کے بعد اعظم نذیر تارڑ نے مزید عدالتی معاونت کے لیے مہلت طلب کر لی جس کو عدالت نے منظور کرلیا۔

بعدازاں عدالت نے نواز شریف، مریم نواز کی اپیلوں پر سماعت 23 جون تک ملتوی کردی۔


اپنا تبصرہ لکھیں