یورپی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی اپنی نوعیت کی پہلی نمایاں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ کورونا کا شکار ہوتے ہیں ان کے جسم میں 6 ماہ تک بلڈ کلاٹس یعنی خون جمنے کی شکایت رہتی ہے، جس سے بعض افراد کو سنگین خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔
طبی جریدے ’بی ایم جے‘ میں شائع تحقیق کے مطابق یورپی ملک سویڈن کے ماہرین نے کورونا کا شکار ہونے والے اپنے ملک کے 10 لاکھ افراد کے ڈیٹا، ان میں وبا کا شکار ہونے کے بعد سامنے آنے والی علامات، صحت مند ہونے کے بعد ہونے والے مسائل اور دیگر باتوں کا موازنہ دیگر 40 لاکھ افراد کے ڈیٹا سے کیا۔
کورونا کا شکار ہونے والے افراد کے ڈیٹا کا موازنہ جب عام لوگوں سے کیا گیا تو معلوم ہوا ہے جو افراد کورونا کا شکار ہوئے ان کے جسم کے بعض حصوں میں خون جمنے کی شکایت 6 ماہ تک رہ سکتی ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایسے افراد جو کورونا کا شکار ہو چکے ہیں ان میں بیماری سے صحتیابی کے 6 ماہ بعد تک جسم میں خون جمنے کے عمل (تھمبروسس) کے مسائل کو نوٹ کیا گیا۔
تجزیے سے معلوم ہوا کہ کورونا سے شدید متاچر ہونے والے افراد میں صحت یابی کے بعد تین ماہ تک جسم کے مختلف حصوں اور خاص طور بازؤں اور ٹانگوں اور 6 ماہ تک پھیپھڑوں کی شریانوں میں خون جمنے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب کہ بعض افراد کو دو ماہ تک بلیڈنگ جیسے مسئلے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ڈیٹا سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کورونا کی دوسری اور تیسری لہر کے مقابلے پہلی لہر میں خون جمنے کے زیادہ کیسز دیکھنے کو ملے، ساتھ ہی ماہرین نے کہا کہ ممکنہ طور پر دوسری اور تیسری لہر میں اس مسئلے کی شدت کم ہونے کی ممکنہ وجہ کورونا کی ویکسینیشن اور علاج ہوسکتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ کورونا میں مبتلا ہونے کے 30 دن بعد ہی بعض لوگوں کے جسم میں خون جمنے میں 5 فیصد اور پھیپھڑوں کی شریانوں میں خون جمنے میں 33 فیصد اضافہ جب کہ بلیڈنگ میں 2 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
اس سے قبل اگست 2021 میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کورونا کی ویکسین لگوانے کے بعد بھی لوگوں میں خون جمنے کی شکایات پائی گئیں لیکن ویکسینیشن کے بعد خون جمنے کے عمل کا خطرہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ خون جمنے سے متعلق ہونے والی نئی تحقیق کے نتائج مریضون کو خون جمنے سے روکنے والی ادویات دینےنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔