چینی صدر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ چین کورونا وائرس وبا سے نمٹنے پر خود مختار تحقیقات اس وائرس کے ’قابو‘ میں آنے کے بعد کرنے کی حمایت کرتا ہے۔
امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے بیجنگ پر وائرس کے آغاز کو چھپانے کے الزامات عائد کیے جانے کے بعد چینی صدر نے عالمی صحت اسمبلی میں کہا کہ چین کا ہمیشہ ’کھلا، شفاف اور ذمہ دارانہ رویہ ہوتا ہے‘۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں پھیلے کورونا وائرس سے اب تک 47 لاکھ افراد متاثر جبکہ 3 لاکھ 10 ہزار سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں۔
روس میں نئے کیسز میں اضافہ رکنے سے امید کی کرن جاگ اٹھی جبکہ امریکی بائیو ٹیک ادارے موڈرنا نے نئے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کے پہلے کلینیکل ٹیسٹ کے نتائج مثبت رپورٹ کیے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے آن لائن ہونے والے اس اجلاس میں کہا کہ ’کووڈ 19 کا پھیلاؤ ہمیں بیدار کرنے کے لیے ہے‘۔
انہوں نے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے وائرس سے متعلق انتباہات پر عمل کرنے میں ناکام رہنے والے ممالک کو خبردار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مختلف ممالک نے مختلف اور بعض اوقات متضاد حکمت عملیوں کی پیروی کی ہے اور ہم سب اس کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں نے جو عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کو نظرانداز کیا ہے‘۔
انسانی جانوں کو پہنچنے والے بھاری نقصانات سے ہٹ کر وبائی مرض معاشی تباہی کا سبب بھی بنا ہے جس کی وجہ سے حکومتوں نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سرحدیں، اسکول، دفاتر اور دکانیں بند کردی ہیں۔
خیال رہے کہ انفیکشن کی شرح کم ہونے کے ساتھ ہی یورپ کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
ویٹیکن میں سینٹ پیٹرس باسیلیکا اور ایتھنز ایکروپولیس جیسے عالمی سطح کے مشہور مقامات سمیت گرجا گھروں، دکانوں اور ریسٹورانٹس کے ساتھ یورپ دوبارہ کھلنے کے سلسلے میں شامل ہوگیا ہے۔
اٹلی، جو وائرس سے دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک تھا، دو مہینے سے زیادہ کی لاک ڈاؤن کے بعد کھل رہا ہے تاہم وہاں عوام اب بھی محتاط ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وائرس کی نگاہیں اب جنوب کی طرف ہیں جہاں اس کے اثرات ‘مزید تباہ کن‘ ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ برازیل میں ہونے والی ہلاکتوں میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ انفیکشنز کی تعداد 2 لاکھ 41 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔
جنوبی امریکا کے سب سے بڑے ملک دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔
تاہم برازیل کے صدر جیئر بولسونارو نے لاک ڈاؤن کی مخافت کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ غیر ضروری طور پر معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
ماہرین اور مقامی رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاک ڈاؤن سے صحت کا نظام اور انفراسٹرکچر تباہ ہوجائے گا۔
برازیل کے صدر نے سماجی دوری کے اقدامات کی نفی کرتے ہوئے متعدد وزرا کے ہمراہ دارالحکومت براسیلیا میں سینکڑوں حامیوں سے خطاب کیا اور کہا کہ وائرس کی پابندیاں بہت زیادہ ہیں۔
جنوبی افریقہ میں اتوار کے روز ایک ہزار 160 نئے کیسز آئے۔
یہ تعداد مارچ میں پہلے کیس کے سامنے آنے کے بعد ایک روز میں سامنے آنے والے کیسز میں سب سے زیادہ ہے جس کے بعد ملک میں کل کیسز کی تعداد 15 ہزار 515 ہوگئی۔
بھارت نے ایک روز میں انفیکشنز کے ایک روز میں سب سے بڑا اضافہ ریکارڈ ہونے پر دنیا کے سب سے بڑے لاک ڈاؤن میں مئی کے آخر تک کی توسیع کردیا۔
معاشی نقصانات
وبا سے عالمی معیشت گریٹ ڈپریشن کے بعد بری طرح متاثر ہوئی ہے اور حکومتیں اس بات کا تعین کر رہی ہیں کہ وہ لاک ڈاؤن اور ویکسین کے نہ ہونے کے ساتھ کتنے عرصے تک اپنے پیروں پر کھڑی رہ سکتی ہیں۔
جاپان 2015 کے بعد اپنے پہلے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے جبکہ چند تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ اس سے بھی بدتر صورتحال ہونی ابھی باقی ہے۔
امریکا کے وفاقی ذخائر کے چیئرمین جیرومی پوول نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی امریکی معیشت کو بہت بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سہہ ماہی کے ڈیٹا میں ہمیں بہت بری صورتحال دکھتی ہے، معاشی سرگرمیوں میں زوال آئے گا اور بے روز گاری بھی بڑے پیمانے پر بڑھے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کی ویکسین کے بغیر پوری طرح سے بحالی ممکن نہیں۔