کراچی: کھلا دودھ 210 روپے فی لیٹر تک پہنچ گیا، چکن کی قیمت 700 روپے کلو ہوگئی

کراچی: کھلا دودھ 210 روپے فی لیٹر تک پہنچ گیا، چکن کی قیمت 700 روپے کلو ہوگئی


غیر یقینی معاشی صورتحال میں صارفین کو روز مرہ استعمال کی قیمتوں میں من مانے اضافے کے باعث مہنگائی کے جھٹکے لگنے کا سلسلہ جاری ہے جس میں کچھ دکانداروں نے کھلا دودھ 190 روپے لیٹر سے مہنگا کر کے 210 روپے لیٹر کردیا۔

اسی طرح زندہ مرغی کی قیمت بھی 30 سے 40 روپے کے اضافے کے بعد 480 سے 500 روپے فی کلو ہوگئی۔

اس ماہ کے اوائل میں زندہ مرغی 390 سے 440 روپے کلو میں دستیاب تھی جبکہ اس سے قبل جنوری کے آخری ہفتے میں اس کی قیمت 380 سے 420 روپے فی کلو تک تھی۔

چنانچہ چند روز قبل تک 620 اور 650 روپے کلو میں دستیاب مرغی کا گوشت اب 700 سے 780 روپے فی کلو میں مل رہا ہے۔

علاوہ ازیں مرغی کا بغیر ہڈی کا گوشت 150 سے 200 روپے اضافے کے بعد ایک ہزار سے 11 سو روپے فی کلو تک پہنچ گیا ہے۔

یوں مرغی کے بغیر ہڈی کے گوشت کی قیمتوں نے بچھڑے کے بغیر ہڈی کے گوشت کی قیمت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جو اس وقت 800 سے 850 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔

کھلا دودھ بھی مہنگا

کراچی ملک ریٹیلر ایسوسی ایشن کے میڈیا کوآرڈینیٹر وحید گڈی نے دعویٰ کیا کہ ایک ہزار سے زائد دکاندار مہنگا دودھ بیچ رہے ہیں، یہ ہول سیلرز /بھینسوں کے باڑے والوں کی دکانیں ہیں ہمارے اراکین کی نہیں ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے 4 ہزار اراکین نے دودھ کی قیمتیں 190 روپے فی لیٹر ہی رکھی ہوئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر باڑے والے اور ہول سیلرز نے قیمت کم نہیں کی تو ہم 210 کے بجائے 220 روپے فی لیٹر دودھ بیچنے پر مجبور ہوں گے کیوں کہ لانے لے جانے کے حساب سے اس میں 27 روپے اضافہ ہوگا۔

مرغی کے گوشت کی قیمت

دوسری جانب مرغی کے مہنگے گوشت کے حوالے سے سندھ پولٹری ہول سیلرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری کمال اختر صدیقی نے کہا کہ زندہ مرغی کی قیمت 600 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 650 سے 700 روپے تھی لیکن ریٹیلرز اپنی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بندرگاہ سے سویا بین میل (پولٹری فیڈ کا ایک جزو) کی کلیئرنس اب بھی مسئلہ بنا ہوا ہے، 50 کلو پولٹری فیڈ کا تھیلا گزشتہ ماہ 6 ہزار روپے کا تھا جو اب 7 ہزار 200 کا مل رہا ہے اور سویابین کے بغیر بنائی جانے والی فیڈ بھی مہنگی ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صارفین کے لیے آئندہ آنے والے مہینوں میں بھی پولٹری مصنوعات کی قیمتیں غیر مستحکم رہنے کا امکان ہے کیوں کہ سویابین میل کی درآمد کے لیے نئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھلنے میں تاخیر ہو رہی ہے جبکہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے غیر ملکی سپلائرز مقامی تاجروں سے معاہدہ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔

تقریباً تمام اشیائے خورونوش کے حوالے سے وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں صارفین کو زیادہ ادائیگی سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کر رہی جس کے باعث مینوفیکچرر اور تاجروں کو قیمتوں میں من مانا اضافہ کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں