کراچی کنگز کی شکستوں کا ذمہ دار بابر کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا، راشد لطیف

کراچی کنگز کی شکستوں کا ذمہ دار بابر کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا، راشد لطیف


راشد لطیف نے کہا ہے کہ کراچی کنگز کی شکستوں کا ذمہ دار بابر اعظم کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا، ڈرافٹ میں ہی کمزور اسکواڈ منتخب ہوا۔

پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pkکو انٹرویو میں راشد لطیف نے کہا کہ سب سے پہلے تو فرنچائزز کو ڈرافٹ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز دونوں نے سلیکشن کے عمل میں پروفیشلزم کا مظاہرہ نہیں کیا کیونکہ اس کی تیاری ایک ماہ قبل کرنا پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ٹیم کو پاور پلے کیلیے کتنے ہٹرز،درمیانی اوورز کیلیے بیٹرز اور رسٹ اسپنرز، چائنا مین یا لیگ اسپنرز،140کی رفتار سے بولنگ کرنے والے 2پیسرز کی ضرورت ہے، کراچی کنگز کے پاس ٹاپ تھری میں صرف شرجیل خان کے سوا کوئی پاور ہٹر نہیں تھا،کئی ایسی غلطیاں ہوئیں،ہوسکتاہے کہ آئندہ نہ دہرائیں۔

ایک سوال پرسابق کپتان نے کہا کہ فرنچائز اور قومی ٹیم کی قیادت میں بہت فرق ہے،پاکستان کے کپتان کو اپنی ٹیم بنانے کا اختیار ہوتا ہے،ایچ بی ایل پی ایس ایل میں معاملہ مختلف ہے،کوچ، مالکان اور کئی ہیوی ویٹس کی موجودگی میں کپتان اپنی رائے پر زور نہیں دے سکتا،اس کو کسی بھی صورتحال میں کھیلنا ہی ہوتا ہے۔

میں بابر اعظم کی کپتانی کے حوالے سے کچھ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ ڈرافٹ کے دن ہی کراچی کنگز بہت کمزور ٹیم لگ رہی تھے،کپتان بڑا کھلاڑی بھی ہومگر انجریز اور دیگر مسائل ہوں تو کامیاب نہیں ہوسکتا،کراچی کے محمد عامر اور محمد الیاس انجرڈ ہوئے،عماد وسیم کو ابتدا میں کورونا ہوگیا، کرس جورڈن تاخیر سے پہنچے۔

انھوں نے کہا کہ میں بابر اعظم کو مکمل سپورٹ کرتا ہوں،لوگوں کو پی ایس ایل کی بنیاد پر ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اندازہ نہیں لگانا چاہیے،انھیں آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے ٹیموں کا کپتان نامزد کیا گیا تھا،عام طور پر تنقید کا ایک رجحان چل پڑتا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر سوالات اٹھانے اور دیگر فرنچائزز کی کپتانوں سے موازنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے،جیسا کہ ویراٹ کوہلی اور روہت شرما کا بھی موازنہ کیا جاتا رہا۔

راشد لطیف نے کہا کہ بہت زیادہ میچز ہارنے کی وجہ سے بابر اعظم دباؤ میں ہوں گے مگر میں انہیں سپورٹ کرتا ہوں، اگر آسٹریلیا کیخلاف ہوم سیریز میں نتائج اچھے نہیں بھی رہتے تو بھی کسی افراتفری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں، پی سی بی کو بابر اعظم جبکہ کپتان کو کھلاڑیوں کو لے کر چلنا ہے،اتفراتفری سے کرکٹرز اور ملک کا نقصان ہوگا۔

آسٹریلیا سے سیریز پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ بدل سکتی ہے

راشد لطیف نے کہا کہ پی ایس ایل میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کی آسٹریلیا کیخلاف ہوم ٹیسٹ سیریز میں کارکردگی پر فرق پڑے گا، فارمیٹ کا فرق ہونے کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ کھلاڑی ایک بائیوببل سے دوسرے میں جائیں گے،بہرحال ایک عرصے بعد پاکستان میں اتنی بڑی سیریز ہورہی ہے، مضبوط ٹیم سے میچز کا لطف آئے گا،اسٹیون اسمتھ،مچل اسٹارک اور پیٹ کمنز سمیت بڑے اسٹارز کو ایکشن میں دیکھنے کا موقع ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ سیریز پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ بدل سکتی ہے،اس کے بعد کسی ٹیم کے پاس انکار کا جواز نہیں رہے گا،نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیمیں بھی آرہی ہیں، امید ہے کہ آگے چل کر بھارتی ٹیم بھی آئے گی،ہمیں زمبابوے، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جن کی محبت اور تعاون کی وجہ سے اس مقام تک پہنچے۔

گلیڈی ایٹرز ناکافی بینچ پاور اور پرانے کھلاڑیوںکے سبب مسائل کا شکار ہوئے

راشد لطیف نے کہا کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ناکافی بینچ پاور اور پرانے کھلاڑی رکھنے کی حکمت عملی کے سبب مسائل کا شکار ہوئے،اسکواڈ مناسب تھا مگر سہیل تنویر اور عمر اکمل سمیت کئی پلیئرز پورے میچ نہیں کھیل سکے، مالک ندیم عمر کو اس طرح کے پروفیشنل لوگوں کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں جو درست حکمت عملی بناسکیں،معین خان اپنی اکیڈمی چلارہے ہیں،ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا،فرنچائز کو سارا سال کام کرنے والے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی پی ایل میں ٹیموں کی مینجمنٹ سارا سال کام کرتی ہے، گلیڈی ایٹرز اپنی حدود سے باہر نہیں آرہے جبکہ کرکٹ بہت تبدیل ہوچکی ہے،پہلے سیزن میں ڈیٹا کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی،اگر کراچی کنگز، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور چند دیگر ٹیموں نے اس جانب توجہ نہ دی توپیچھے کی طرف جاتے جائیں گے۔ملتان سلطانز نے ڈرافٹ کے وقت ہی پروفیشنل انداز میں ہوم ورک مکمل کرلیا تھا، ان کے پاس ہر قسم کا پلیئر موجود ہے۔

1،2میچز کی کارکردگی پر کسی کو ہیرو بنانا درست نہیں

راشد لطیف نے کہا کہ1،2میچز کی کارکردگی پر کسی کو ہیرو بنانا درست نہیں،بہترین ڈومیسٹک پلیئرز وسیم جونیئر قومی ٹیم کا حصہ رہے مگر فرنچائز نے باہر بٹھا دیا، حیدر علی بھی پاکستان کیلیے کھیلے مگر پشاورزلمی نے بار بار ان کا بیٹنگ آرڈر تبدیل کیا، بابر اعظم ہوں یا فخرزمان سیٹ ہونے میں وقت لگتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چھکوں سے متاثر ہوتے اور پھر بیٹر اچانک غائب ہوجاتے ہیں،ٹیلنٹ کو محفوظ بھی کرنا پڑتا ہے، جس کا دفاع مضبوط نہیں وہ لمبا نہیں چل سکتا،عبداللہ شفیق،محمد حارث،قاسم اکرم اور ذیشان ضمیر میں اچھا ٹیلنٹ نظر آیا ہے، میر حمزہ نے بھی اچھا کم بیک کیا۔

کبھی اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹنا قلندرز کی سب سے بڑی کامیابی ہے

راشد لطیف نے کہا کہ لاہور قلندرز ہارے بھی تو اپنے مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے،آج ٹیم کی کارکردگی میں 50فیصد فخرزمان کا ہاتھ ہے،ایک ہی ایونٹ میں 500رنز بنانا آسان نہیں ہوتا،اوپنر جلد آئوٹ ہوں تو پرفارمنس متاثر ہو جاتی ہے۔

لاہور قلندرز کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ کبھی اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے، فخرزمان، شاہین شاہ آفریدی، حارث رئوف کو صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع دیے،کامران غلام کو لائے،اسٹاف بھی مقامی رکھا، ان سب کی حوصلہ افزائی کی،قومی کرکٹ کے سسٹم کو نئے پلیئرز دیئے، ایسا کام کسی فرنچائز نے نہیں کیا۔

سرفراز احمد کو اپنا کپتانی کا انداز بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں

راشد لطیف نے کہا کہ سرفراز احمد کو اپنا کپتانی کا انداز بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں،انھوں نے اسی اسٹائل میں قیادت کرتے ہوئے پاکستان کو انڈر19 ورلڈکپ اور چیمپئنز ٹرافی جبکہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو پی ایس ایل ٹائٹل جتوایا،جو اس طرح سے قیادت نہیں کرتے کیا وہ زیادہ بہتر کپتان ہیں، انھوں نے پاکستان یا فرنچائز کو کون سا ٹائٹل جتوا دیا۔

انھوں نے کہا کہ میرا انداز دھیما جبکہ معین خان، دھونی اور گلکرسٹ کا الگ تھا، میں تو کبھی سرفراز سے نہیں کہوں گا کہ ایسا نہ کرو، ان کی اپنی ٹیم ہے، وہ کسی کو بھی کچھ کہتا ہے تو وہ وقتی طور پر ہوتا ہے، ڈریسنگ روم تک بات تھوڑی جاتی ہے۔

راشد لطیف نے کہا کہ بطور صحافی آپ کا اپنا انداز ہے،آپ کے سوالات مختلف ہوتے ہیں، اب کوئی اور کہے کہ سلیم صاحب یہ سوال کیا کریں تو آپ کو برا لگے گا ناں،سوشل میڈیا، اخبار یا ٹی وی پر آپ کا اینگل مختلف ہوتا ہے،آپ کا تاثر ہی الگ ہے، اسی لیے آپ لوگوں کے گڈ بوائے نہیں بن پاتے،سرفراز اور اپنے آپ کو ایک جگہ رکھ کر دیکھیں تو آپ دونوں کو کوئی الگ اور سوچ کو جدا نہیں کر سکتا۔


اپنا تبصرہ لکھیں