چین کا بھارت سے سرحدی تصادم کے بعد وادی گلوان میں مارشل آرٹس ٹرینرز بھیجنے کا فیصلہ


چین کا کہنا ہے کہ وہ 20 مارشل آرٹس ٹرینرز کو اپنی افواج کی تربیت کے لیے تبت بھیج رہا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کے بارے میں سرکاری سطح پر کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے تاہم چینی سرحدی فوج کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 20 بھارتی فوجیوں کے ہلاک ہونے کے واقعے کے بعد یہ پیش رفت سامنے آئی ہے۔

خیال رہے کہ 1996 میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت دونوں ممالک اس علاقے میں بندوق یا دھماکہ خیز مواد ساتھ نہیں رکھ سکتے ہیں۔

چین نے اس سے قبل ہونے والے واقعے کے بارے میں اپنی ہلاکتوں کی کوئی معلومات جاری نہیں کی تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ اس کے 76 فوجی اس میں زخمی بھی ہوئے تھے۔

سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے کہا تھا کہ اینبو فائٹ کلب کے 20 فائٹرز تبت کے دارالحکومت لہاسا جائیں گے جبکہ چینی میڈیا نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ وہ بھارتی سرحد پر فوجیوں کو تربیت دی جائے گی۔

جوہری قوت رکھنے والے دونوں ممالک چین اور بھارت نے 15 جون کو لداخ کے علاقے وادی گلوان میں ہونے والی جھڑپ پر ایک دوسرے پر الزامات لگائے ہیں۔

اس سے قبل میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین نے بھارتی سرحد پر پہاڑ سر کرنے والوں کے ہمراہ مارشل آرٹس کے فائٹرز کو رواں ماہ ہونے والی جھڑپ سے قبل ہی وہاں بھیج دیا تھا۔

الجزیرہ کی رپورٹ میں چین کے اخبار چائنا نیشنل ڈیفنس نیوز کے حوالے سے بتایا کہ 15 جون کو 5 نئے ملیشیا ڈویژن جس میں ماؤنٹ ایورسٹ پر اولپمک کی شمع لے جانے والے اور مکس مارشل آرٹس کلب کے فائٹرز شامل ہیں، نے خود کو لہاسا میں انسپیکشن کے لیے پیش کیا تھا۔

چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے سینکڑوں فوجیوں کو تبت کے دارالحکومت میں جمع ہوتے دکھایا گیا۔

تبت کے کمانڈر وانگ ہائیجیانگ کا کہنا تھا کہ اینبو فائٹ کلب کے لوگ فوجیوں کی قوت اور فوری ردعمل دینے کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے۔۔

تاہم انہوں نے یہ بات خصوصی طور پر واضح نہیں کی کہ ان کی تعیناتی سرحد پر جاری تنازع کی وجہ سے سامنے آئی۔

بھارت کی سخت کارروائی کی دھمکی

دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ہمالیائی سرحد پر چین سے تناؤ کے بارے میں کہا کہ لداخ میں بھارت کی سرزمین پر آنکھ اٹھا کر دیکھنے والوں کو سخت جواب دیا جائے گا۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’لداخ میں بھارتی حدود پر نظر رکھنے والوں کو کرارا جواب دے دیا گیا ہے‘۔

ماہانہ ریڈیو پروگرام پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر بھارت دوستی نبھانا جانتا ہے تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا اور مناسب جواب دینا بھی جانتا ہے‘۔

تاہم بھارتی وزیر اعظم نے اپنے بیان میں چین کا نام نہیں لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے بہادر فوجیوں نے یہ دکھا دیا کہ وہ کبھی بھی بھارت کی شان پر آنچ نہیں آنے دیں گے، بھارت ہلاک ہونے والے بہادروں کو سلام پیش کرتا ہے، انہوں نے ہمیشہ بھارت کو محفوظ رکھا اور ان کی قربانی کو یاد رکھا جائے گا‘۔

واضح رہے کہ بھارت اور چین کے فوجیوں کے مابین 15 جون کو ہونے والے تصادم میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

امریکا کی خلائی ٹیکنالوجی کمپنی میکسار ٹیکنالوجیز کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں دکھایا گیا تھا کہ وادی گلوان کے ساتھ چینی تنصیبات نظر آرہی ہیں۔

آسٹریلیا کے اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مصنوعی سیارہ ڈیٹا کے ماہر نیتھن روسر نے کہا تھا کہ اس تعمیر سے پتہ چلتا ہے کہ کشیدگی میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

یہ وادی گلوان اور دریائے شیوک کے سنگم پر شروع ہوتی ہے اور دونوں فریقین جس لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو باضابطہ تسلیم کرتے ہیں، وادی میں ان دریاؤں کے سنگم کے مشرق میں واقع ہے۔

چین اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ میں بھارت کے 20 فوجی مارے گئے تھے اور یہ 45 سال کے دوران دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سب سے خونریز جھڑپ ہے۔

ماہرین کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات انتہائی کم ہیں البتہ کشیدگی میں کمی میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

چین دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا 90 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ بھارت میں واقع ہے جس کے جواب میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کا 38 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ چین کی حدود میں اکسائی چن کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں