لاہور: ایک روز قبل پنجاب کے وزیر خوراک کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آنے پر سمیع اللہ چودھری نے دعوٰی کیا ہے کہ اسد عمر نے اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے مخالفت کے باوجود گندم برآمد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
گندم کے آٹے کی رپورٹ کی سازش میں ملوث قوتوں کو بے نقاب کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیٹی نے کبھی بھی ان کو تحقیقات کے لیے طلب کرنے کی خواہش نہیں کی۔
اسد عمر نے بطور وفاقی وزیر خزانہ گذشتہ سال کے اوائل میں اسلام آباد میں ایک اعلٰی سطحی اجلاس کی صدارت کی تھی اور اس وقت پنجاب میں 7.2 ملین ٹن گندم کے ذخیرے برآمد کرنے کو کہا تھا۔
ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اس اقدام کی مخالفت کی کیونکہ حکومت کو برآمدات کے لیے سبسڈی (دنیا کے نرخوں سے اناج مہنگا ہونے کی وجہ سے) فراہم کرنا ہوگی‘۔
انہوں نے کہا ، “میں نے ان سے کہا کہ ملک سبسڈی دینے کا متحمل نہیں ہے اور اسٹاک کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنے کا مشورہ دیا (مقامی آبادی کی بھالئی کے لیے)، اسلام آباد اور خیبر پختونخوا میں فلور ملوں کو اب بھی سبسڈی مل رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایف آئی اے کی ڈی جی کی زیرقیادت انکوائری کمیٹی کو بھی اپنی رپورٹ میں اس حقیقت کو شامل کرنے کو کہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد اور کے پی ملوں کو فراہم کی جانے والی گندم پر دی جانے والی سبسڈی کی قیمت پنجاب غیر منصفانہ طور پر اٹھا رہی ہے، فائدہ اٹھانے والوں کو لازمی طور پر اس کی ذمہ داری بانٹنی چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پنجاب نے گذشتہ سال پیدا ہونے والی گندم کا 83 فیصد خرید جب کہ دیگر کسی اور صوبے نے ایک بھی اناج نہیں خریدا (جس کے نتیجے میں بعد میں آٹے کا بحران 2019 میں ہوا تھا)۔
انہوں نے ایف آئی اے کی رپورٹ کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے اس کے مقصد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ انکوائری کمیٹی کے ممبران ذمہ داری طے کرنے پر تلے ہوئے تھے، خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط کیوں کہ وزیر اعظم نے انہیں یہ کام سونپ دیا تھا‘۔
سابق صوبائی وزیر نے دعوٰی کیا کہ کمیٹی نے انہیں کبھی طلب نہیں کیا اور وہ خود ہی تحقیقات میں شامل ہوئے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ کمیٹی نے نہ تو ان کے بیان کو صحیح طریقے سے ریکارڈ کیا اور نہ ہی وہ خطوط جو انہوں نے محکمے کو لکھے ہیں، اس رپورٹ کا حصہ ہیں۔