پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر

پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر


پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر جاری وساری ہے اقوام عالم اب بھی جزوی طوربندش کا شکار ہے، انسانی گھروں میں مقید رہے اور کئی حکومتی ادارے عملی طور پر غیر فعال بن کرہ گئے تھے، دنیا بھر میں بڑی بڑی صنعتیں تالہ بندی کا شکار ہو چکی ہیں، گزشتہ چند ہفتوں میں زندگی اس طرح تبدیل ہو جائے گی یقین نہیں آتا سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے،کھانا پینا ،سیرو سیاحت، ملنا جلنا،دفتری معاملات سے لے کر بچوں کے اسکول تمام چیزیں تبدیل ہو چکی ہیں، کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا، معاشی حالات بھی پہلے جیسے نہیں رہے، شاپنگ سینٹر، عام بازار بند ہیں، ان کی رونقیں ختم کو چکی ہیں، شاہراہیں، ہائی وے ویرانی کا منظر پیش کررہے ہیں، اس طرح پوری دنیا اس طرح کی ہی تبدیلیوںکا شکار ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پوری دنیا کشتی نوح کی طرح ایک ہی کشتی میں سوار ہے اور یہ کشتی ساحل سمندر پر لنگر انداز ہونے سے قبل بڑے بڑے ہچکولے لے رہی ہے اور ساحل نصیب ہونے سے قبل ہی کسی جذیرے کے عقب میں واقع پہاڑ سے ٹکرانے کے بالکل قریب پہنچ چکی ہے، جہاں سے نکلنے کا واحد ایک ہی  راستہ ہے اور اس راستہ کی تلاش میں اقوام عالم بھر پور طریقے سے سرگرم عمل ہے، انشاء اللہ یہ کاوشیں او ر جستجو کا سفر ایک دن ضرور کارگر ثابت ہو گا اور ہم سب ایک بار پھر اپنے اپنے علاقوں میں جا کر سکھ کا سانس لینے کے قابل ہو سکیں گے اور ایک بار پھر ہم سب اُسی مشینیں زندگی میںمصروف ہو جائیں گے اور زندگی اسی پرانی اعتدال پسندی کے ساتھ رواں دواں ہو جائے گی اورخوف کی جو لہر پوری دنیا کا احاطہ کئے ہوئے ہے جلد ہی اختتام پذیر ہو گی، تاہم اس دوران ضرور ہزاروں ،لاکھوں افراد اپنی زندگیوں کے چراغ گل کئے،اس جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہونگے جبکہ کروڑوں افراد اور لاکھوں خاندان تباہی اور بربادی کا نشان بن کر رہ جائیں گے۔
اگر ہم ایک صدی قبل تاریخ کا مطالعہ کریں تو برصغیر پاک وہند میں18مئی1918ء کو جب پہلی عالمی جنگ ختم ہونے کے قریب تھی اس وقت پانی کا ایک جہاز بمبئی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتا ہے اور اس جہاز کے ذریعے ہندوستان پہنچنے والے سپاہیوں میں سے7سپاہی ایک ماہ بعد 10جون کو انفلولینزا کے مرض میں مبتلا ہو کر اسپتال داخل ہوتے ہیں، لیکن بعد ازاں معلوم ہوتا ہے کہ یہ فوجی ایک خطرناک ایسی بیماری کا شکار ہیں جو کہ انسانوں میں بہت تیزی سے سفر کر کے ایک دوسرے کو متاثر کررہی ہے، جس کو بعد ازاں اسپینش فلو کا نام دیا گیا اور یہ بیماری بھی وائرس کے ذریعے پھیلی اوریہ بیماری دو سالوں تک یہ برقرار رہی،1920ء میں اس کا اثر کافی حد تک کم ہوا لیکن آپ اس بیماری کی سنگینی کا اس طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ بیماری صرف متحدہ ہندوستان میں ایک کروڑ80لاکھ سے زائد افراد کو ابدی نیند سلانے کا سبب بنی اور بھارت اس وقت دنیا بھر میں اموات کے نمبروں میں دیگر ممالک کے مقابلے میں سر فہرست رہا، اس وقت اس فلو میں دنیا بھر کے50کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے اور یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کا چوتھائی حصہ تھی ، تاہم آج دنیا کی آبادی7ارب سے زائد کی آبادی میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دو لاکھ28ہزار اور کنفرم کیسز کی تعداد3.21ملین ہے، اس تاریخی اعدادو شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کے مقابلے میں100سال قبل دنیا کو اس طرح کی ہی وبا کی کافی قیمت ادا کرنا پڑی تھی، اسپینیش فلو1918ء سے شروع ہو کر دسمبر1820میں اختتام پذیر ہوا، آج کرونا کی وباء جو کہ دسمبر 2019ئ سے شروع ہوئی ہے لیکن اس کے اختتام کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔ تاہم آج کے دور میں جدید سائنس ،ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے ڈاکٹروں،نرسیں اور معاشی طور پر سمیت صحت کے شعبہ میںاپنی زندگیاںکا خطرے میں ڈال کر ہماری اور ہمارے پیاروں کی زندگیاں بچانے کی تگ ودود میں مصروف ہیں، جس طرح میں نے پہلے ذکر کیا معاشی طور پر لاکھوں کروڑوں انسان تباہی اور بربادی کا نشان بنیں گے لیکن فوری طور پر وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو کہ روزانہ کی بنیادوں پر کماتے ہیں، ان کے پاس نہ ہی بچت کی گئی کوئی جمع پونجی ہے اور نہ ہی روزگار، وہ گھر بیٹھ کر کریں بھی تو کیا کریں، اس طرح یہ غریب طبقہ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے صنعتکار، سیاستدان ،حکمران اور طاقتور سے طاقتور ترین شخص کو بھی یہ پتہ نہیں کہ اس وباء سے کس طرح نمٹا جائے ، بڑے، چھوٹے تمام صنعتکار پریشانی کا شکار ہیں، اس سے بچنے کی تدبیر جو کہ سمجھ آ سکی ہے وہ صرف اور صرف یہی ہے کہ گھر میں رہو، کسی سے نہ ملو، اگر بہت ضرور ہو تو باہر قدم رکھو، ملنا اگر بہت ضروری ہے تو فاصلہ رکھا جائے، اس طرح دنیا بھر کی ریاستیں اور معاشرے فی الحال بے بس ہیں اور مشترکہ طور پر ایسی ویکسین تیار کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں جو کہ اس موذی مرض کو آنے سے قبل ہی انسانی جسم میں ہلاک کر سکے، تاہم پرانی دنیا سے نئی دنیا کا یہ سفر جاری ہے اور ہمیں خود بھی پتہ نہیں کہ ہم کب اس بیماری کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے، تاہم کامیابی کے بعد ہماری ایک نئی دنیا ہو گی،کئی مفکرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پیشہ، صنعتوں، ایجادات اور طرز زندگی میں بڑی تبدیلیاں ممکن ہیں، کئی ممالک میں پہلے ہی گھر سے ہی دفتری کام کرنے کا رواج چلتا آ رہا ہے، مگر اس وبا کے بعد مزید کئی اور شعبہ ہائے جات قائم ہونگے جہاں پر دفتر کی بجائے حاضری ضروری نہیں ہو گی، اس طرح امریکہ میں ہائی اسکول اور اس سے نچلے گریڈ میں زیر تعلیم طالبعلموں کی کلاسوں سے متعلق یہ گمان بھی نہیں تھا کہ ان کی کلاسیں آن لائن شروع ہو ں گی اور ان کو گھر پر ہی تعلیم حاصل کرنا ہو گی، اس طرح نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں تعلیم وتدریس کا کام گھر بیٹھے جاری ہے، زوم کے ذریعے جہاں کلاسیں ہو رہی ہیں وہاں اس کے ذریعے آن لائن میٹنگ اور اجلاسوں میں بھی زوم کا استعمال تواتر سے کیا جا رہا ہے، طالب علم اور استاد گھر کی اسکرین پر ایک ساتھ نظر آ رہے ہیں، امریکہ سمیت دنیا بھر میں کانفرنسز، لیکچرز، سیاسی،سماجی پارٹیوں کے اجلاس زوم کے ذریعے منعقد ہو رہے ہیں، گو کہ پاکستان میں پسماندہ علاقوں جیسے بلوچستان، سندھ، پنجاب، شمالی علاقہ جات کے وہ دیہی علاقے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں، وہاں مسائل ضرور ہونگے، لیکن مستقبل قریب میں اس ٹیکنالوجی میںجو ریاستیں پیچھے ہیں، ان کو آگے لانے کی ضرورت ہے ، تاہم اس وبا کے بعد یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ دنیا کے طاقتور ترین ممالک اس وبا میں اپنی قوت اور طاقت کو برقرار رکھ پاتے بھی ہیں یا کہ وہ بلندی سے پستی کی طرف گامزن ہوتے ہیں، اس ضمن میںتمام قیاس آرائیاں امریکہ اور چین کے مستقبل پر لگی ہوئی ہیں، امریکہ چین پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کمپنیوں کو کہا ہے کہ وہ چین سے نکل کر دوبارہ چین جا کر سرمایہ کاری کریں، اس طرح تجارتی جنگ بھی چھیڑی جا چکی ہے، تجارتی خسارے کو کم کیا گیا ہے کہ چین نے جو دولت جمع کی ہے، اس میں مزید اضافہ نہ ہو سکے، اس طرح امریکہ یورپی اتحادیوں کو چھوڑنے کا سوچ رہا ہے جبکہ یورپی یونین والے اتحادی بھی امریکہ کی دفاعی صلاحیتوں کے محتاج نہیں رہنا چاہتے، ان سے بھی امریکہ کے اختلافات چل رہے ہیں، ویسے بھی برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے نکل جانے سے پوری یورپی یونین کے اتحاد سے متعلق اس کے مستقبل کے حوالے سے بھی سوالات جنم لے رہے ہیں، لیکن چین نے اس وبا کے دوران ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ مستقبل میں ایک ابھرنے والی بڑی طاقت  ہو گی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین مستقبل قریب میں مزید ترقی کرے گا، اس وقت بھی دنیا بھر میں کرونا سے بچائو کے اقدامات سے متعلق دنیا بھر نے چین کے تجربہ سے فوائد حاصل کئے اور کررہے ہیں، پاکستان میں قیادت کا فقدان ہے،ہونا تو یہ چاہے تھا کہ اس دبا کے بعد قیادتوں کو اپنی محنت اور دیانت اور خدمت سے انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے اقدامات کئے جاتے، آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے تمام سیاسی پارٹیوں کو اس کام پر لگایا جاتا لیکن اس کے برعکس یہ بات سامنے نظر آئی کہ اس دوران حکومت نے اور ملٹری اسسٹیبلشمنٹ نے کرونا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اٹھاویں ترمیم کو بحال کرنا شروع کر دیں، اس طرح امریکہ میں بھی جہاں معالجین پریکٹیشنر کرونا وائرس کے بحران کا سامنا کررہے ہیں ،تو دوسری جانب امریکہ میں قائم اسلحہ ساز کمپنیوں نے اپریل میں متعدد امریکی ریاستوں میں گھروں میں رہنے والے افراد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو اسلحہ سے متعلق تشہیر کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر کئی پیجنز تشکیل دیئے، لابی نے یہ تمام کام کروایا،اس طرح امریکی صدر لاک ڈائون کے حق میں نہیں تھے جبکہ وہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی اکثریتی ریاستوں میں ہونے والے اس طرح کے مظاہروں کی حمایت کرتے نظر آئے بہر کیف اب جبکہ پوری دنیا پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر طے کرنے میں لگی ہوئی ہے جبکہ حکمرانوں کیلئے مشکلات اور چیلنجز بڑھتے چلے جا رہے ہیں، طویل بندش سے بھوک،بیروزگاری اور پریشانی میں اضافہ ہورہا ہے، کوئی بھی فیصلہ کرنا اتنا آسان کام نہیں، مگر پاکستان میں فیصلوں پر عملدرآمد کرانا اس وقت مشکل ہو تا ہے، جب مذہبی گروہ اس کے مخالف ہوں، بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں لاپرواہی سے کام لیا گیا تو مئی کے وسط میں پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد میں کافی اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
بہر کیف پرانی دنیا نئی دنیا کی رہنمائی کررہی ہے، دنیا میں نت نئے طریقے متعارف کرا دئیے ہیں اور یہ وبا ترقی کی راہ کا تعین بھی کررہی ہے اور ہمیں جدید زندگی کی طرف راغب بھی کررہی ہے، اس لئے ہمیں خود کو بھی جدید زندگی کی طرف راغب ہونا ہو گا، اور اگلی دنیا کے راستوں کی تیاری میں ان کے شانہ بشانہ چلنا ہو گا،جبکہ کائنات کے اصولوں اور قدرتی تبدیلیوں کو سمجھنے سے ہی ہم اپنی موجودہ صورتحال کا یقین اور اگلی زندگی کا تعین کر سکیںگے، کرونا کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ انسان کا بنایا ہوا وائرس ہے، جس کو حیاتیاتی ہتھیار کے بطوراستعمال کیا جا رہا ہے، اگر یہ گمان درست تصور کر لیا جائے کہ اس وائرس کا فطرت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے تو ہم پر صرف اس کے موذی اور مضر اثرات ہی پڑ سکتے ہیں جیسا کہ ایٹم بم گرنے کے بعد دنیا جانی مالی اور معاشرتی نقصانات کا شکار ہو گئی تھی، ویسے اگر اس میں وائرس کی نوعیت شامل ہے، تو یقینا ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں اور اس کے ساتھ زندگی بھی گزار سکتے ہیں اور یہی وائرس ہمیں مزید آگئے کی طرف لے کر جائے گا،کیونکہ دنیا کی ہیرا پھیری دنیا کے مستقبل کو مسخ کر سکتی ہے لیکن فطرت کی تبدیلی سے زمین ختم نہیں ہو گی اگر یہ وائرس کسی سسٹم کے تحت پھیل جاتا ہے تو اس کا پھیلائو اس کے ایٹموں میں قدرتی عمل ہے کیونکہ اس طرح کی قدرتی آفات جو کہ ایک جانب انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہیںتو دوسری جانب زمین کی زندگی بھی ناگزیر ہے یہاں تک کہ اگر یہ وائرس ہم آہنگ نہیں ہے اور اپنی فطری شکل میں موجود ہے تو یہ وبا اپنی زندگی اور مزاج کے ساتھ سیارے کے مثبت سمت کا ذریعے بھی بن سکتی ہے اور انسانوں کو ماحول کے مطابق نئی دنیائوں کے اصول کی طرف راغب کرنے میں انتہائی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے، اس طرح یہ وائرس ایک ایسا وائرس ہے جس کے لئے انسان تیار نہیں تھا، وائرس اپنے وقت میں اس دنیا پر آیا ہے میں پچھلے دنوں تاریخ کا مطالعہ کررہا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہر سو سال بعد ایک ایسا ہی بڑا وبائی مرض اس زمین پر آیا جیسے کہ1720میں طاعون،1820 میں کالرہ(ہیضہ)1920میں اسپنیش فلو جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اوراب 2020ء میں کرونا، اگر ہم انسانوں کے پتھر کے زمانے سے لے کر دورانیے کا جائزہ لیں تو ہر بدلتے ہوئے عہد سے قدرت ہم کو ایک خاص مقام تک پہنچنے کے بعد نئی دنیا کی روشنی کو دکھاتی ہے اور شاید یہ نئی دنیا کی روشنی سو سالوں پر محیط ہوتی ہے، بہر کیف اگر ہم ترقیاتی ادورا کے دوران زمین کے جسمانی حالات کا مشاہد ہ کریں تو قدرت نے انسانی نسل کو ہمارے آس پاس کی دنیا کی ایک نئی تصویر کس طرح عطاء کی، بگ بینگ کے نظریہ کے تحت زمین بڑے دھماکے کے تناظر میں وجود میں آئی، آگ جلنے کے عمل گیسوں کے اخراج کے دور سے لے کر پانی بننے کے عمل اور پھر زنددگی کے وجود کی تشکیل کو ہمیں دیکھنا ہو گا، یعنی یہ کہ جو عمل چلا وہ پہلے زندگی کے وجود کے قابل بھی نہیں تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی گئیں اور یہ تمام عوامل زندگی کے وجود کو تشکیل دینے میں موزوں ثابت ہوتے رہے، اس دور سے لے کر اب تک دور میں جو بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں وہ آہستہ آہستہ انسانی زندگیوں کیلئے بہتر ہوتی گئیں، ماہر فلکیاں اور ماہر طبعات کی تحقیقات کے مطابق یہ زمین کا مدار ابھی اپنی زندگی تک نہیں پہنچا ہے اور اس عجیب وغریب مقام تک  پہنچنے کیلئے اس کو کئی صدیاں درکار ہیں، اس صورتحال پر غور کرتے ہوئے یہ استدلال منطقی ہو گا کہ اس وقت زمین پر فطرت کی زندگی سے متعلق مشکلات درست نہیں ہیں بلکہ یہ فطرت کی کارستانی زندگی میں مشکلات کیلئے نہیں بلکہ اس کا رخ تبدیل کرنے کیلئے ہو سکتی ہیں اس طرح ہم اگر انسانی تہذیب کا مطالعہ کریں تو پتھر کے دور سے لے کر زرعی دور تک کے سفر میں قدرتی تبدیلیوں نے ہمیں راہیں عطا کیں اور قدرتی آفات انسانوں کو غار میں لے آئیں،زرعی عہد سے زرعی دور اور تہذیب کے دور تک فطرت کی جانب سے آنے والی ہر آفت نے ہمیں ایک نئی دنیا بنانے اور آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا ہے، اس طرح سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم زمین کی تازہ تباہی کیلئے تبدیلی کی نشانی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، اس کا جواب ہاں میں ہے دراصل قدرت نے ہمیں ایک بار پھر موقع دیا ہے کہ ہم اپنی طرز زندگی کو تبدیل کریں اور اپنی زندگی کو ایک ایسے معاشرے کے جدید خطوط پر استوار کریں جو ہمارے اصل مقصد یعنی جنت کے تصور سے ہم کلام ہو سکے، کووڈ19کی دنیا کیسی ہو گی اور ہمارا انداز زندگی کیسا ہو گا یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں ہے یقینا ہم ایک ایسی دنیا کے سفر کی جانب نکل چکے ہیں جو کہ صدیوں سے ہمارے تصور میں جکڑی ہوئی ہے، تمام اقوام کے مذہبی پیشوا بعد از زندگی سے خیالی دنیا کا اکثر ذکرکرتے رہتے ہیں۔یہ تمام ضرورتیں، راحیتیں ،آسانیاں ،عیاشیاں عقائد سے جو ذکر اس کو دوسرے جہان میں حاصل کرنے کی ہم تمنا رکھتے ہیں، یا پھر کبھی قصہ کہانیوں او ر تصوراتی زندگی میں حاصل کرکے اپنے دل کو خوش کرتے ہیں، اس دنیا میں ہم اپنی سوچ کے اشارے سے ہر وہ چیز حاصل کرلیتے ہیں جو کہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری جبلت ،تنہائی ،لذت،راحت کو کم کرے،ان تمام حقائق کی روشی میں ہم یہ بار آور کرا سکتے ہیں کہ فطرت نے ہم کو کووڈ19کے ذریعے معاشرتی G-6دے کر کمپیوٹر کی زندگی کے بعد(Virtual)زندگی ورچوئل زندگی میں جانے کا موقع فراہم کیا ہے،G6-G3ایک ورچوئل دنیا ہے جو کہ ترقی کرتے کرتے جی5سے جی10 تک آگے جائے گی، جس طرح ہم آگے کا سفر طے کرتے چلے جائیں گے ، اس طرح یہ زندگی ورچوئلیٹی کی طرف راغب ہوتی چلی جائے گی، آپ دیکھیں کہ کووڈ19کے بعد جہاں پورا کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا وہاں آن لائن خریداری کا رجحان عروج پر پہنچ گیا ، جہاں روڈ راستے رویران ہو چکے ہیں، وہاں انٹرنیٹ کے ذریعے ملنے والی ہوم ڈیلوری کے سبب ایمیزان اور دیگر کمپنیوں کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا، گھریلو سامان اور اشیائے خوردو نوش گھر بیٹھے نیٹ کے ذریعے منگوانے کا کاروبار عروج پر نظر آ رہا ہے اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی، سماجی رابطے جو پہلے بالمشافہ ہوتے تھے، وہ اب ورچوئیلٹی،اسکائپ اور واٹس ایپ پر اپنے رابطہ قائم کرتے چلے آ رہی ہیں، کھیلوں کے میدان ویران ہو چکے ہیں مگر موبائل کے اسکرین پر ویڈیو گیم نیٹ فلیکس اور ڈزنی کے اسکرین اب گھروں میں کھل گئے ہیں، کھیلوں کے میدان ویران ہو چکے ہیں مگر موبائل کی اسکرین پر ویڈیو گیم ،نیٹ فلیکشن اور ڈزنی کے اسکرین اب گھروں میں کھل گئے ہیں۔
کووڈ19 نے زمینی سچائی کو علیحدہ کر دیا ہے ایک متبادل بڑھانے دینے والی حقیقت ورچوئل یونیورسٹیاںاور آن لائن تعلیم پہلے سے موجود تھی، لیکن تعلیمی ادارے اس وائرس کے سبب بند ہو گئے ، تب سے ویڈیو لیکچرز اور آن لائن تعلیم کا رجحان عروج پر ہے، اگرچہ ہماری تعلیم اور معاشرتی سرگرمیاں خیالی حقیقت کی طرف منتقل ہو گئی ہیں لیکن ہماری معاشرتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیاں خیالی حقیقت کے ساتھ بڑھ گئی ہیں، سیاستدانوں نے ہالو گرام ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے محافل موسیقی اور سوشل میڈیا سائنس میں شرکت کیلئے اپنی رضا مندی کی وڈیو شیئر کرنا شروع کر دی ہیں، مذہبی رہنما بھی اس ٹیکنالوجی سے پیچھے نہیں ہٹے، جہاں اس سے مسلک کے لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے، وہاں اب یہودی عبادات گاہوں نے مجازی فرقہ پرست عبادت کا اپنا نظام تشکیل دینا شروع کر دیاہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی کاروبار زندگی نہیں ہے جس میں ہم اپنی زمینی حقیقت سے خیالی حقیقت کی طرف نہ بڑھے ہوں ، زمینی سچائی سے خیالی تصور میں منتقلی کا یہ صرف آغاز ہے، اس وقت موبائل یا کمپیوٹر اسکرین پر خریداری پر ہم نظر ڈالتے ہیں،ہم اس کو چھو نہیں سکتے اور نہ ہی جسمانی طور پر استعمال کر سکتے ہیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ہر گھر میں ورچوئل کمرے بڑھتے جائیں گے، کمرے کے اندر بیٹھ کر ہم جگہ شاپنگ،ہوٹل عبادت گاہ اور دفاتروں میں جائیں گے اور خیالی معاشرتی سرگرمیاں انجام دینے کیلئے اپنے کاروبار کو ایک ساتھ چلائیں گے، جس طرح ٹی وی ہمارا خاندانی گھر ہے، اس طرح کا ورچوئل کمرہ بھی ہمارے گھر کا حصہ بن جائے گا اور وہ دن دور نہیں جب مستقبل میں ہمارے سارے گھر حقیقت بن جائینگے اور ہم پوری دنیا میں اپنے روبوٹکس اور کمپیوٹرائزڈ گھروں کے ذریعے ہی جڑے ہونگے، لیکن میں اور آپ شاید اس دنیا کو نہ دیکھ پائیں مگر ہماری نسلیں ضرور اس دنیا کو دیکھیں گی،

اپنا تبصرہ لکھیں