وکیل جبران ناصر کے ’اغوا‘ کے خلاف مقدمہ درج

وکیل جبران ناصر کے ’اغوا‘ کے خلاف مقدمہ درج


معروف وکیل اور حقوق کے لیے کام کرنے والے متحرک فرد جبران ناصر کی ’اغوا‘ کے خلاف خلاف کراچی کے تھانے کلفٹن میں ان کی اہلیہ کی شکایت مر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

تھانہ کفلٹن میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں جبران ناصر کی اہلیہ منشا پاشا نے کہا کہ میرا تعلق میڈیا سے ہے، یکم جون 2023 کو میں اپنے شوہر کے ہمراہ گھر کی طرف جا رہی تھی اور ہم لوگ جب خیابانِ تنظیم نزد آئڈیل بیکری پہنچے تو بوقت تقریبا 11 بجے ایک سفید رنگ کی ٹویوٹا ہیلکس/ویگو نے جس کا نمبر بی ایف-4356 رجسٹرڈ تھا، نے بائیں جانب سے ہماری کار کو ٹکر ماری اور ہمیں رکنے پر مجبور کیا’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سلور رنگ کی کرولا نے ہماری گاڑی کو پیچھے سے اس طرح بلاک کیا کہ ہم گھر گئے، ان گاڑیوں میں سے تقریباً 15 افراد جن کے ہاتھوں میں پسٹلز تھیں، اترے اور میرے شوہر کو کار سے نکلنے پر مجبور کیا ان کے ساتھ زبردستی کرتے ہوئے انہیں اپنی گاڑی کی طرف لے کر گئے اور پھر اغوا کر کے لے گئے، ان کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات نہیں ہے‘۔

منشا پاشا نے جبران ناصر کی رہائی کے لیے فوری کارروائی اور بغیر کسی وجوہات کے انہیں اغوا کرنے والے 10 سے 15 افراد کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔

جبران ناصر کے ’اغوا‘ کے خلاف احتجاج

ادھر کراچی کی سول سوسائٹی تنظیموں پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے گزشتہ رات ’نامعلوم افراد‘ کے ہاتھوں اٹھائے گئے معروف وکیل اور حقوق کے لیے کام کرنے والے متحرک فرد جبران ناصر کی ’اغوا‘ کے خلاف آج شام 4 بجے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

جوائنٹ ایکشنی کمیٹی نے اپنے مشترکہ بیان میں شہریوں پر احتجاج میں شرکت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ وقت جبران ناصر کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنے کا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ انصاف موجود ہے‘۔

درین اثنا وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی طرف سے جارہ کردہ بیان میں جبران ناصر کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پولیس چیف سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے پولیس کو ہدایت کی کہ جبران ناصر کی بازیابی کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ ہمیں جبران ناصر کے اہل خانہ کی طرف سے شکایت موصول ہوئی ہے اور پولیس ان کی رہائی کے لیے کوشش کر رہی ہے۔

قبل ازیں ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ ’سادہ کپڑوں میں ملبوس اور ہاتھوں میں پستول اٹھائے تقریباً 15 افراد نے ہماری گاڑی کو گھیرا اور جبران کو زبردستی لے گئے، ساتھ ہی انہوں نے جبران کے لیے آواز اٹھانے اور کی خیریت کے لیے دعا کی اپیل کی۔

منشا پاشا نے مزید کہا کہ وہ ہمیں کار سے باہر نکالنے کے لیے صرف چیختے رہے اور کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔

اظہارِ مذمت

ادھر متعدد سماجی کارکنان، وکلا اور صحافیوں نے جبران ناصر کی ’اغوا‘ کی مذمت کرتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جبران ناصر کی ’اغوا‘ کی شدید مذمت کی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ جبران ناصر کی اغوا ملک میں حالیہ ہفتوں میں عمران خان کی گرفتاری کے دوران پرتشدد جھڑپوں کے بعد تنقید کرنے والوں پر کریک ڈاؤن کرنے کے تناظر میں ایک اور ایک اور کیس ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکام سے مطالبہ کیا کہ جبران ناصر کی تیزی سے اور غیر جانبداری سے تفتیش کرکے جبران ناصر کا پتا لگایا جائے۔

مزید کہا گیا ہے کہ اگر جبران ناصر ریاستی تحویل میں ہیں تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے اور اگر ان کے خلاف کوئی ثبوت ہیں تو انہیں سولین عدالت میں پیش کیا جائے اور بین الاقوامی طور پر قابل تسلیم جرم کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔

جبران ناصر سماجی و ملکی مسائل پر بے دھڑک بات کرنے اور پاکستانیوں کے آئینی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں میں ایک توانا آواز سمجھے جاتے ہیں۔ ’ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔

حال ہی میں وہ پی ٹی آئی کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر فسادات میں حصہ لینے والے افراد کےخلاف قانونی کارروائی کے طریقے پر بھی تنقید کرتے رہے ہیں۔

انہیں 2013 میں فارن پالیسی میگزین نے فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف متاثر کن کام کرنے والے تین پاکستانیوں میں شامل کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے سینئر صحافی سمیع ابراہیم کو اسلام آباد میں نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے اور چھ روز بعد گھر واپس آئے۔

دریں اثنا، اینکر پرسن عمران ریاض خان، جنہیں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے بعد نفرت انگیز تقریر کے الزام میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 11 مئی کو سیالکوٹ کے ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا اور پھر ’نامعلوم افراد‘ کے ہاتھوں اٹھا لیا گیا تھا، ابھی تک غائب ہیں۔

جیسے ہی جبران ناصر کو ’اٹھائے جانے‘ کی خبر پھیلی، سول سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ ساتھ حقوق کی تنظیموں نے ان کی خیریت پر تشویش کا اظہار کیا اور ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے ایک بیان میں کہا کہ اسے ان اطلاعات پر گہری تشویش ہے کہ وکیل اور کارکن جبران ناصر کو کراچی میں نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کر لیا۔

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں فوری طور پر بحفاظت بازیاب کیا جائے اور ان کے اغوا کاروں کو قانون کے تحت جوابدہ بنایا جائے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی سلمان صوفی نے کہا کہ جبران ناصر کی گمشدگی کی خبروں کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے توقع کی کہ سندھ پولیس جبران ناصر کے اہل خانہ کی معاونت کرے گی۔

سلمان صوفی نے کہا کہ جبران ناصرنے ہمیشہ پرتشدد انتہاپسندی اور تصادم کے خلاف بات کی ہے، امید ہے کہ انہیں فوری اور باحفاظت بازیاب کیا جائے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے مطالبہ کیا کہ ’مناسب قانونی عمل‘ کی پیروی کی جائے۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی جبران ناصر کے ’اغوا‘کی شدید مذمت کی ہی۔

ایک سرکاری پریس ریلیز میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ مذکورہ ایکٹ قانون کی حکمرانی کی آزادی کو نقصان پہنچانے اور قانونی برادری کو خوفزدہ کرنے کے لیے شمار کیا گیا ہے۔

بار ایسوسی ایشن نے پولیس اور متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کریں، مجرموں کو گرفتار کریں اور جبران ناصر کو جلد از جلد بازیاب کرائیں۔

مزید کہا کہ ناکامی کی صورت میں، ایسوسی ایشن اپنے اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ کرے گی۔


اپنا تبصرہ لکھیں