نیب ترامیم کیس: بدعنوانی کےخلاف مقدمات مختلف عدالتوں میں چلائے جائیں گے، پی ڈی ایم کا جواب

نیب ترامیم کیس: بدعنوانی کےخلاف مقدمات مختلف عدالتوں میں چلائے جائیں گے، پی ڈی ایم کا جواب


قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے پر اپنا حتمی مؤقف دینے کے لیے فراہم کیے گئے آخری موقع پر سابق حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپنے غیر معمولی جواب میں کہا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف جاری مقدمات اب بھی مختلف عدالتوں میں چلائے جائیں گے، جبکہ پاکستان میں قانون ساز ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق یہ ریفرنس سینئر وکیل مخدوم علی خان کی طرف سے سپریم کورٹ کے تین ججز کے بینچ کے سامنے جمع کرائے گئے جواب کا حصہ تھا، جو کہ اب سابق وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

قانونی ماہرین کے لیے جواب کے طنزیہ لہجے عدالت میں ہونے والے مباحثوں پر ایک تبصرہ ہے۔

نیب ترامیم کے خلاف مقدمہ اب آخری مراحل میں ہے جہاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سید منصور علی شاہ نے اس پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

19 جولائی 2022 کو شروع ہونے والی سماعت ججز کے ان مشاہدات کے ساتھ جاری ہے کہ قانون ساز یا ارکان پارلیمنٹ کو، عوامی نمائندے اور ٹرسٹی ہونے کے ناطے اپنے معاملات میں شفاف اور منصفانہ ہونا چاہیے۔

تاہم پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے بنائے گئے قانون میں 27 ترامیم کے ذریعے، لوگوں کو عوام کے تئیں اپنے فرض کی خلاف ورزی کی صورت میں منتخب نمائندوں سے سوال کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔

مسلسل سماعتوں کے دوران یہ سوالات بھی پوچھے گئے کہ کیا ترامیم کا اثر بدعنوانی کی بعض شکلوں کو قانونی حیثیت دینے اور احتساب کے مقدمات بنانے پر پڑے گا، تاکہ ترمیمی آرڈیننس کے تحت پراسیکیوشن سے باہر رکھا جا سکے۔

حالیہ جواب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے عدالتی ساتھی کے ذریعے پوچھے جانے کے بعد جمع کرایا گیا کہ اگر احتساب عدالت اپنے دائرہ اختیار کی کمی کی وجہ سے کسی رکن پارلیمنٹ کے خلاف ریفرنس بھیجتی یا منتقل کرتی، تو کون سی مجاز منتقلی عدالت ہوگی جو ریفرنس کا فیصلہ سنائے گی اور کس قانون کے تحت؟

جواب کے مطابق اگر رکن پارلیمنٹ پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگایا گیا اور یہ کیس نیب ترمیمی آرڈیننس 1999 کے دائرہ کار میں نہیں آتا یا جرم 50 کروڑ روپے سے کم ہے تو چیئرمین نیب اسے متعلقہ ایجنسی یا اتھارٹی کو بھیج سکتے ہیں۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر معاملہ زیر سماعت ہے اور عدالت کا یہ مؤقف ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تو یہ کیس کسی دوسری عدالت، ٹریبونل، فورم، ایجنسی یا اتھارٹی کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔

ان میں کرپشن کی روک تھام ایکٹ، 1947 کی دفعات، پاکستان فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ، 1958 یا پاکستان پینل کوڈ کے تحت کیے گئے جرائم کے لیے متعلقہ عدالتیں شامل ہیں۔

اگر رکن پارلیمنٹ کو آمدن کے معلوم ذرائع سے غیر متناسب اثاثوں کے کیس کا سامنا ہے یا جرم 50 کروڑ روپے سے کم ہے اور اگر اس طرح رکھے گئے یا حاصل کیے گئے اثاثے انکم ٹیکس گوشواروں یا ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر نہیں کیے گئے ہیں تو معاملہ زیر سماعت نہ ہونے کی صورت میں چیئرمین نیب کرپشن کی روک تھام ایکٹ کے سیکشن 5۔بی اور 5۔سی کے تحت یا فیڈرل بورڈ آف ریونیو یا صوبائی اینٹی کرپشن ایجنسیوں کو بھیج سکتے ہیں۔

ایف بی آر ریٹرن یا ویلتھ اسٹیٹمنٹ پر نظرثانی کرکے ٹیکس عائد کر سکتا ہے۔

اسی طرح الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کمیشن کے پاس جمع کرائے گئے اثاثوں اور دولت کے بیان میں مبینہ اثاثے ظاہر نہ ہونے کی صورت میں کیس کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔

اگر پارلیمنٹیرین کے خلاف مالی نوعیت کا کوئی جرم عائد کیا جاتا ہے اور کیس زیر سماعت نہیں ہے تو چیئرمین نیب اسے ایف بی آر یا صوبائی ریونیو حکام کو تحقیقات کے لیے بھیج سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں، آئی ٹی او، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990، فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005، کسٹمز ایکٹ 1969 اور دیگر متعلقہ قوانین کے تحت جرائم کی سماعت کے لیے مقدمات کو خصوصی عدالتوں میں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں