اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کے عدالتی ریمانڈ میں 23 اگست تک توسیع کردی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں اسلام آباد میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں قتل ہونے والی نورمقدم کے مرکزی ملزم کے والدین کو عدالتی ریمانڈ مکمل ہونے پر پیش کر دیا گیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نصیر الدین نے سماعت کی اور ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 23 اگست تک (مزید 14 روزہ عدالتی ریمانڈ) توسیع کردی اور ملزمان اس وقت اڈیالہ جیل میں موجود ہیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نصیر الدین نے ملزمان کی روبکار کے ذریعے حاضری لگائی، جس کے بعد ملزمان کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور پولیس ملزمان کو واپس اڈیالہ جیل لے کر روانہ ہو گئی۔
ملزمان کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ مکمل ہونے پر کچہری لایا گیا تھا، 27 جولائی کو عدالت نے ان کا دو ہفتوں کا عدالتی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
بعد ازاں سیشن عدالت نے 5 اگست کو ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی جانب سے دی گئیں ضمانت کی درخواستیں مسترد کی تھیں۔
ایڈیشنل سیشن جج شیخ محمد سہیل نے محفوظ شدہ مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ضمانت کی درخواستیں خارج کی تھیں۔
عدالت کے 5 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملزمان اپنے بیٹے نور مقدم کو قتل کرنے میں سہولت کار بنے اور ان کے خلاف صلاح مشورہ کرنے اور جرم چھپانے کی دفعات شامل کی گئیں۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملزم ذاکر جعفر نے پولیس کو آگاہ کرنے کے بجائے ری ہیبلی ٹیشن سینٹر کے عملے کو جائے وقوع پر بھیجا، ملزمان نے ناقابل ضمانت جرم کا ارتکاب کیا اس لیے ان کی درخواست ضمانت خارج کی جاتی ہے۔
ملزم ظاہر جعفر کے والد اور والدہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے 27 جولائی کو سیشن کورٹ میں درخواست جمع کرائی تھی۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو انہیں اپنی بیٹی نور مقدم کو گھر سے غائب پایا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند پایا اور اس کی تلاش شروع کی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔
20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے متاثرہ کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔
اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔