نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت میں حالیہ فسادات کے بعد صورتحال معمول پر آنے لگی۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی کے فسادات سے متاثرہ شمال مشرقی علاقوں میں زندگی معمول پر آرہی ہے، کئی علاقوں میں کاروباری مراکز کھل گئے ہیں جب کہ مارکیٹوں میں بھی عوام کا رش معمول پر آرہا ہے۔
بے گھر افراد کو 25 ہزار روپے امدادی رقم کا اعلان
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نئی دہلی کی حکومت نے فسادات کے دوران بے گھر ہونے والوں کو امدادی رقوم دینے کا اعلان کیا ہے۔
نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروِند کجریوال کا کہنا ہےکہ حکومت ابتدائی طور پر بے گھر ہونے والوں کو 25 ہزار روپے امدادی رقم دے گی جب کہ حکومت نے بے گھر افراد کے لیے 9 پناہ گاہیں بھی قائم کی ہیں۔
نفرت آمیز بیانات رپورٹ کرنے کیلیے ہیلپ لائن قائم
ریاستی حکومت نے نفرت آمیز بیانات کو رپورٹ کرنے کے لیے واٹس ایپ پر ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی ہے جس پر لوگ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے نفرت انگیز مواد کے بارے میں بھی شکایت درج کراسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ حکومت لوگوں سے اپیل کرے گی کہ وہ اس طرح کے نفرت آمیز پیغامات کو سوشل میڈیا پر نہ پھیلائیں۔
ہنگاموں میں ملوث افراد کی نشاندہی جاری
نئی دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مسلسل فلیگ مارچ بھی کیا جارہا ہے جب کہ پولیس نے عوام سے اپیل کی ہےکہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں پر دھیان نہ دیں اور اس حوالے سے پولیس کو اطلاع دیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق پولیس اور انٹیلی جنس حکام نے حالیہ فسادات میں ملوث کچھ افراد کی نشاندہی کی ہے اور چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے ملوث عناصر کی فہرستیں تیار کی جارہی ہیں۔
بھارتی میڈیا کا بتانا ہےکہ اسپیشل انویسٹی گیشن پولیس نے حالیہ فسادات کی تحقیقات شروع کردی ہیں اور اس سلسلے میں 148 مقدمات درج کیے گئے ہیں جب کہ 630 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف نئی دہلی میں ہونے والے احتجاج پر گزشتہ ہفتے پولیس اور بے جی پی کے غنڈوں نے حملہ کیا جس کے بعد دارالحکومت کے شمال مشرقی علاقوں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جن میں مسلمانوں کی املاک سمیت مساجد کو نشانہ بنایا جب کہ مسلمانوں کو شناخت کرکے انہیں قتل کیا گیا۔
نئی دہلی میں ہونے والے فسادات میں تقریباً 39 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔
متنازع شہریت کا قانون
11 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
اس قانون کے ذریعے بھارت میں موجود بڑی تعداد میں آباد بنگلا دیشی مہاجرین کی بے دخلی کا بھی خدشہ ہے۔
بھارت میں شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاج میں شریک ہیں۔
پنجاب، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش سمیت کئی بھارتی ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کرچکی ہیں جب کہ بھارتی ریاست کیرالہ اس قانون کو سپریم کورٹ لے گئی ہے۔