منی لانڈرنگ کیس کی سماعت، شہباز شریف کی حاضری معافی کی درخواست منظور

منی لانڈرنگ کیس کی سماعت، شہباز شریف کی حاضری معافی کی درخواست منظور


منی لانڈرنگ کیس میں عدالت نے وزیراعظم شہبازشریف کی حاضری معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے وکلا کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دے دی۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی اسپیشل سینٹرل کورٹ میں آج جج اعجاز حسن اعوان نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔

وزیراعظم شہباز شریف آج سماعت کے لیے عدالت میں پیش نہ ہوئے اور ان کے وکیل امجد پرویز نے حاضری معافی کی درخواست دائر کی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعظم سرکاری مصروفیات کے باعث پیش نہیں ہوسکتے، عدالت ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست منظور کرے، جس پر عدالت نے شہبازشریف کی حاضری معافی کی درخواست منظور کرلی۔

گزشتہ سماعت پر شہباز شریف کی بریت کی درخواست پر دلائل مکمل کر لیے گیے تھے، آج حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز نے بریت کی درخواست پر دلائل دیے۔

دوران سماعت جج اعجاز حسن اعوان نے ایف آئی اے کی وکیل فاروق باجوہ سے استفسار کیا کہ ملک مقصود کے کتنے بینک اکاؤنٹس ہیں؟

فاروق باجوہ نے جواب دیا کہ ملک مقصود کے نام پر 8 بینک اکاؤنٹس ہیں، یہ تمام تفصیلات چالان میں موجود ہیں، ریکارڈ کے مطابق شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں براہ راست پیسے جمع نہیں کرائے گئے، نہ ہی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس سے براہ راست پیسے نکلوائے گئے۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نہ کوئی کک بیکس کا نہ رشوت کا الزام ہے، بینکرز کو ایف آئی اے نے کیس سے ہی نکال دیا، بینکرز گواہ ہیں نہ ملزم، تحقیقات رجیم چینج سے پہلے ہوئی اور سیاسی بنیادوں پر لوگوں کے بیانات لیے گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ساری تفتیش گزشتہ حکومت کی تفتیشی ٹیم نے کی، کسی گواہ نے شہباز شریف یا حمزہ شہباز کا نام تک نہیں لیا، اگر کوئی ایسا بیان آ جاٸے تو میں عدالت سے باہر چلا جاؤں گا۔

اس دوران ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز رمضان شوگر مل کے شیئر ہولڈر اور مالک ہیں۔

جج نے استفسار کیا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ پیسے کا لین دین اور پیسے ٹرانسفر حمزہ شہباز کے کہنے پر ہوئے؟ فاروق باجوہ نے جواب دیا کہ اس بات کا ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

امجد پرویز نے کہا کہ جن لوگوں کے اکاونٹس کھلوائے وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمیں معلوم نہیں کہ پیسے کہاں سے آئے۔

ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ جن کے اکاونٹس ہیں وہ اسے تسلیم کرتے ہیں، مرحوم گلزار کا اکاونٹ بھی رمضان شوگر ملز کی انتظامیہ آپریٹ کرتی رہی۔

عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا آپ تحریری طور پر یہ سب لکھ کر دے سکتے ہیں؟

فارقو باجوہ نے کہا کہ مجھے تحریری بیان دینے کے متعلق ہدایات نہیں ہیں، جو ریکارڈ موجود ہے اسکے مطابق معاونت کر سکتا ہوں۔

عدالت نے ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس زبانی شواہد کیا ہیں؟

امجد پرویز نے کہا کہ انہوں نے 66 گواہان رکھے، کسی نے شہباز شریف اور حمزہ پر کوٸی الزام نہیں لگایا، یہ چالان گزشہ حکومت میں مکمل ہوا، رجیم چینج کے بعد نہیں، سیاسی بیانیے کے طور پر الزام لگاٸے جا سکتے ہیں مگر عدالت نے شواہد پر فیصلہ کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف نہ رمضان شوگر مل کے ڈائریکٹر ہیں نہ ہی شئیر ہولڈر ہیں،2008 سے 2018 تک رمضان شوگر مل کے اکاؤنٹ سے شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں کچھ نہیں آیا، اسی قسم کے کیس میں ہائیکورٹ نے مونس الہی کے خلاف مقدمے کو خارج کیا۔

اس دوران شہباز شریف کے وکیل نے مونس الٰہی کے فیصلے کی کاپی پیش کر دی۔

امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ اس کیس میں اور مونس الہیٰ کیس دونوں میں مدعی ریاست تھی، ہمارے کیس میں نہ کسی بینک نہ سرکاری خزانے نہ کسی شخص کو نقصان ہوا، یہ صرف سیاسی بیانیے کی کہانی ہے ، یہ کیس ایک دن نہیں چل سکتا، نیب نے بھی یہی کیس بنایا ہوا جس میں شہباز شریف کے تمام بیٹے بیٹیاں اور بیویوں کو نامزد کیا گیا ہے۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے وکلا کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

منی لانڈرنگ کیس

خیال رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 419، 420، 468، 471، 34 اور 109 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، سلیمان شہباز برطانیہ میں ہیں اور انہیں مفرور قرار دے دیا گیا تھا۔

بدعنوانی کی روک تھام کے قانون کی دفعہ 5(2) اور 5(3) (مجرمانہ بدانتظامی) کے تحت 14 دیگر افراد کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔

شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔

ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرایے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپڑاسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔

ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔

چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحٰق ڈار کی مدد سے کیا۔

ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرم کی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامی عہدوں پر براجمان رہے تھے۔


اپنا تبصرہ لکھیں