چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملک دیوالیہ نہیں ہو رہا اور حکومت پر زور دیا کہ ڈالر کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکننی بینچ نے سپر ٹیکس کے نفاذ سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے سپر ٹیکس سے متعلق تمام درخواستوں کو یکجاں کردیا تاکہ ان سب پر مشترکہ سماعت کی جائے۔
سماعت کی ابتدا میں ایف بی آر کے وکیل فیصل صدیقی نے سپریم کورٹ میں دلائل دیے کہ سپر ٹیکس کیس میں لاہور ہائیکورٹ کا حتمی فیصلہ آ گیا ہے، لاہور ہائیکورٹ نے حتمی فیصلے پر عملدرآمد 60 دن کے لیے معطل بھی کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے سپر ٹیکس کے تمام مقدمات کو یکجا کر کے آئندہ ہفتے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔
ایف بی آر کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ ٹیکس کیسز میں اکثر سپریم کورٹ 50 فیصد کمپنیوں کو جمع کرانے کا کہتی ہے۔
کمپنیون کی جانب سے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کا حتمی فیصلہ آنے کے بعد عبوری حکم کے خلاف ایف بی آر کی درخواستیں غیر موثر ہو چکی ہیں، عدالت درخواستیں غیر موثر ہونے کے بعد 50 فیصد سوپر ٹیکس کی ادائیگی کا حکم نہیں دے سکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکتا ہے، مزید کہا کہ ایف بی آر نے ’اچھی نیت‘ سے سپر ٹیکس لگایا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معلوم ہے کہ شیل پاکستان پہلے ہی کروڑوں روپے کا ٹیکس ادا کرتا ہے اس پر ایف بی آر کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ابھی میں ایف بی آر کی وکالت کر رہا ہوں۔
ایف بی آر کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ملک اگر ڈیفالٹ ہوا تو وفاق کی نمائندگی بھی کروں گا اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پاکستان دیوالیہ نہیں ہو رہا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ سب کو ملک کے مفاد کے لیے خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، حکومت غیر ملکی کرنسی کی بیرون ملک اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 16 فروری تک ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ سپر ٹیکس کے خلاف شیل پاکستان سمیت مختلف کمپنیوں نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے نجی کمپنیوں کو سپر ٹیکس ادائیگی میں چھوٹ دی تھی۔
کمپنیوں کو سپر ٹیکس میں چھوٹ دینے کا لاہور ہائی کورٹ کا حکم ایف بی آر نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
بعدازاں 6 فروری کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے عبوری حکم نامے میں ترمیم کرتے ہوئے ٹیکس دہندگان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے سپر ٹیکس واجبات کا نصف براہ راست ایف بی آر کے پاس ایک ہفتے کے اندر جمع کرائیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس جون میں وزیراعظم شہباز شریف نے قوم کو بجٹ میں کیے گئے اقدامات پر اعتماد میں لیا اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نمٹنے کے لیے بڑی صنعتوں بشمول سیمنٹ، اسٹیل، چینی، تیل اور گیس، کھاد، ایل این جی ٹرمینلز، ٹیکسٹائل، بینکنگ، آٹو موبائل، کیمیکلز، مشروبات اور سگریٹ پر 10 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا۔
ایف بی آر نے سپر ٹیکس کے نفاذ سے مالی سال 2023 کے لیے ٹیکس کا ٹخمینہ 250 ارب رکھا تھا۔