مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے این ایف سی کی تشکیل عدالت میں چیلنج کردی


مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے 10 ویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی)کی تشکیل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے درخواست کی ہے کہ این ایف سی کی تشکیل کے 12 مئی کا نوٹیفکیش اور مشیر خزانہ کا این ایف سی اجلاس کی صدارت کرنے کا اختیار کالعدم قرار دیا جائے۔

خیال رہے کہ وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 160 (1) کے تحت صدر مملکت سے ٹرم آ ف ریفرنسز منظور ہونے کے بعد این ایف سی کی تشکیل کا نوٹفکیشن جاری کیا تھا۔

کمیشن میں 10 اراکین شامل ہے اور صدر نے وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وفاقی وزیر کی عدم موجودگی میں اجلاس کی سربراہی کرنے کا اختیار بھی تفویض کیا وگرنہ مشیر کے پاس کمیشن کا رکن بننے کا بھی اختیار نہیں ہوتا۔

رہنما مسلم لیگ محسن شاہنواز رانجھا اور عمر گیلانی کے توسط سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئین کی دفعہ 160 کے تحت صدر نے نوٹیفکیشن جاری کیا جن کی ذمہ داری ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اور صوبائی زیر خزانہ اور ان افراد پر مشتمل کمیشن تشکیل دیں جنہیں صوبوں کے گورنرز سے مشاورت کے بعد مقرر کیا گیا ہو۔

درخواست میں کہا گیا کہ کمیشن میں 2 قسم کے اراکین ہونے چاہیئے ایک قانونی اراکین اور دوسرا متفقہ اراکین، قانونی اراکین وہ 5 اراکین ہوتے ہیں جن کی موجودگی کمیشن کے لیے لازم ہے جس میں وفاقی اور صوبائی وزرائے خزانہ شامل ہیں جبکہ متفقہ اراکین وہ ہوتے ہیں جنہیں گورنرز سے مشاورت کے بعد شامل کیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ کسی بھی متفقہ رکن کو صدر اور صوبوں کے گورنرز(ان کی کابینہ کی تجویز) کے درمیان اس بات پر اتفاق ہونے پر شامل کیا جاتا ہے کہ اس رکن کی مہارت این ایف سی کے لیے ضروری ہے۔

تاہم نافذ شدہ نوٹفکیشن میں کسی بھی مشاورت کا ذکر نہیں جو صدر نے این ایف سے کے متفقہ اراکین کے لہ گورنرز کے ساتھ کی ہو جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشاورت کی ہی نہیں گئی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ صدر نے وزیراعظم کے مشیر خزانہ کو این ایف سی کے اجلاس کی سربراہی کا اختیار دیا۔

درخواست کے مطابق صدر اور گورنر اپنی کابینہ یا وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی تجویز پر عمل کے پابند ہیں اور نافذ شدہ نوٹیفکیشن میں ایسی کسی تجویز کا ذکر نہیں تھا۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ چنانچہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسی کوئی تجویز لی ہی نہیں بالخصوص ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا تقرر اس بات پر یقین کی وجہ ہے کہ کسی بھی صوبائی کابینہ سے مشاورت نہیں کی گئی۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ 12 مئی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔


اپنا تبصرہ لکھیں