پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل ق) حالیہ سیاسی حالات میں انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جبکہ اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے متحرک ہیں اور حکمران جماعت کے اتحادیوں کی نظریں انحراف کی جانب ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اپوزیشن جماعتوں کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کسی بھی بڑی سرگرمی سے اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی پوزیشن مزید مضبوط اور قومی اور صوبائی اسمبلی میں اس کی اہمیت بڑھے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی جاتی ہے تو حکومت اپنے 3 میں سے 2 اتحادیوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوگی، جن میں پاکستان مسلم لیگ (ق)، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور ایم کیو ایم پاکستان شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہنگو سے تعلق رکھنے والے ایم این اے خیال زمان اورکزئی کے انتقال کے بعد پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد مزید کم ہوگئی ہے۔
دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں رہتے ہوئے پی ایم ایل (ق) واحد اتحادی جماعت ہے جو 10 ووٹوں سے اپنے سینئر شراکتدار کی حکومت بچا سکتی ہے، پی ٹی آئی کو پنجاب اسمبلی میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے صرف 4 ووٹ درکار ہیں۔
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بدلتے سیاسی منظر نامے کے پیش نظر مسلم لیگ (ق) نےحالات پر نظر رکھی ہوئی ہے جبکہ ہفتہ وار بنیادوں پر اس سے متعلق جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کو اختلاف رائے رکھنے والے جہانگیر ترین کے گروپ سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی ہی پارٹی کے خلاف ووٹ دیں گے نہ ہی اپوزیشن کے عدم اعتماد تحریک لانے کی صورت میں یا وزیر اعظم کو دوبارہ اعتماد حاصل کرنے کا ووٹ دینے سے گریز کریں گے۔
متعلقہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے لیے ووٹنگ میں پارٹی لائن سے کوئی انحراف، تمام منحرف افراد کی نااہلی کا باعث بنے گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے متعدد پہلوؤں پر غور نے سسپنس پیدا کیا ہے لیکن وہ اب تک کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے میں ناکام ہیں’۔
دریں اثنا پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت کی زیر قیادت پی ایم ایل (ق) کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس ہوا جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پی ٹی آئی کو اتحادی جماعتوں کی جانب سے دی گئی تجاویز کو سنجیدہ لینا چاہیے، کیونکہ عوام کے مسائل کے حل میں تاخیر سے حکمران جماعت کے لیے سیاسی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
پارٹی رہنما نے یاد دہانی کروائی کہ ’اتحادی جماعتوں کے منتخب اراکین اپنے حلقوں کے ووٹرز کو جوابدہ ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ایم ایل (ق) کی قیادت مہنگائی کو روکنے میں ناکامی اور توانائی اور پیٹرولیم کی قیمت میں ہونے والے حالیہ اضافے پر پی ٹی آئی کی حکومت سے ناراض ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے ایک اور رہنما نے دعوٰی کیا کہ اجلاس میں پارٹی کی رائے تھی کہ تمام راستے کھلے رکھنے چاہیے اور حکمران جماعت کے علاوہ اپوزیشن کے ساتھ کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہونا چاہیے۔
مسلم لیگ (ق) کے اجلاس میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی پر اعتماد کا اعادہ کرتے ہوئےانہیں پارٹی سطح کے فیصلے کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا۔
پرویز الٰہی نے اپوزیشن شہباز شریف شریف سمیت آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقاتوں کے حوالے سے پارٹی رہنماؤں کو اعتماد میں لیا ہے۔
دریں اثنا گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ننکانہ صاحب میں وفاقی وزرا، مونس الٰہی، ریٹائرڈ بریگیڈئر اعجاز شاہ اور غلام سرور سے ملاقات کی، جس میں سیاسی اور حکومتی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
معاملے سے با خبر ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ گورنر نے پارٹی سے متعلقہ مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا، جس میں وفاقی وزرا کے ہمراہ حالیہ سیاست اور حکومتی مسائل کو بھی زیر بحث لایا گیا۔