قومی اسمبلی: سروسز ایکٹ ترمیمی بل منظور


دفاعی کمیٹی کی جانب سے بلز منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں بھی سروسز ایکٹ ترامیم بل کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی نے اپنی تجاویز واپس لی لیں۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا۔ وزیراعظم عمران خان بھی اجلاس میں شرکت کیلئے ایوان میں موجود تھے۔ ایوان زیریں آمد پر وزیراعظم عمران خان نے اراکین سے مصحافہ کیا۔

قائمہ کمیٹی دفاع کے سربراہ امجد علی خان نے کی جانب سے ایوان میں آرمی ایکٹ ترمیم بل پیش کیا گیا۔ جس کے بعد وزیر دفاع نے بل پیش کیا۔ اور ترامیم کی منظوری کا آغاز ہوا۔ اسپیکر سے اجازت طلب کرنے کے بعد وزیر دفاع پرویز خٹک نے شق وار اس کی منظوری کا عمل شروع کیا تھا، جس کے بعد سروسز ایکٹ کو کثرت رائے سے منظور کرنے کے بعد اسمبلی اجلاس کل بدھ شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

مخالفت اور حمایت کس نے کی؟

ایوان زیریں کے اراکین نے متفقہ طور پر بل کی منظوری دی، تاہم جے یو آئی ف، جماعت اسلامی کی جانب سے شرکت نہیں کی گئی۔ سابق فاٹا کے 2 اراکین کی جانب سے بل کی منظوری کے خلاف ایوان اور اجلاس سے واک آؤٹ کیا گیا۔ حکومتی کے اتحادیوں سمیت پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نے اس کی حمایت کی۔

پیپلزپارٹی نے ترامیم واپس لے لیں

ایوان زیریں میں موجود پی پی سینیر رہنما نوید قمر نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے وزیر دفاع کی درخواست پر تینوں ترامیم سے متعلق اپنی تجاویز واپس لے لی ہیں۔ نوید قمر کا کہنا تھا کہ اجلاس سے قبل حکومتی ٹیم کی جانب سے انہیں ایک باکس فراہم کیا گیا، جس کے ذریعے یہ درخواست کی گئی۔

اراکین کا واک آؤٹ

ایوان میں موجود کچھ اراکین فاٹا کی جانب سے بل پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے بل کی منظوری کے خلاف ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا گیا۔

اس سے قبل قائمہ کميٹی برائے دفاع نے تینوں بلز آرمی ایکٹ ترمیمی بل، ائیرفورس ایکٹ ترمیمی بل اور نیوی ایکٹ ترمیمی بل 2020 متفقہ طور پر منظور کیے۔ رکن اسمبلی رميش کمار کا کہنا تھا کہ کسی جماعت نے کوئی ترمیم تجویز نہيں کی۔

قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد رولز کے مطابق تینوں مسلح افواج کے ترمیمی بل قومی اسمبلی میں آج پیش کیے جائیں گے، جہاں بھی منظور ہونے کی امید ہے۔ دوسری جانب حکومت نے ترامیم بل سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر نظرثانی اپیل واپس نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلاول بھٹو اور آرمی ایکٹ

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے معاملے پر پارلیمانی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ جمہوری طريقہ نہ اپنايا تو سوال اُٹھيں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی ترميمی بل پر اپنی ترامیم پیش کرے گی۔

فضل الرحمان کا انکار

جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بل سے متعلق حمایت دینے سے انکار کردیا۔ پارٹی کے مشاورتی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں جے یو آئی ف کے سربراہ نے کہا تھا کہ حکومت کے اقدامات فوج کے ادارے اور قیادت کو متنازع بنا رہے ہیں۔ فوج ملک کا دفاعی ادارہ ہے، اس کے سربراہ غیر متنازع ہیں، اُنہیں متنازع نہیں بنانا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مدت ملازمت میں توسیع پر سقم دور کرنے کا کہا تھا لیکن حکومت مزید سقم پیدا کر رہی ہے۔ ہمیں ایک جائز اور آئینی و قانونی جمہوری ماحول چاہیے، یہ لوگ نہ عوام کے نمائندے ہیں، نہ جمہوریت کی علامت ہیں۔

جماعت اسلامی

امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق بھی حکومتی بل کی حمایت سے انکار کرچکے ہیں۔

ترامیم بل کیا ہے؟

خیال رہے وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کردہ ایکٹ میں ترمیم کے مسودے کے مطابق حکومت نے آرٹیکل 243 میں ترمیم کے ساتھ آرمی ایکٹ 1952 میں ایک نیا باب شامل کیا ہے۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت کریں گے، وزیراعظم کی سفارش پر آرمی چیف کوزیادہ سے زیادہ 3 سال کی توسیع دی جاسکے گی۔

مسودے میں کہا گیا وزیراعظم اس سے کم مدت کی سفارش بھی کرسکتے ہیں آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کو کسی عدالت میں کسی صورت چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ آرمی چیف پر جنرل کی مقرر کردہ ریٹائرمنٹ کی عمر کا اطلاق نہیں ہوگا، مدت تعیناتی کے دوران ریٹائرمنٹ کی عمر آنے پر بھی آرمی چیف رہیں گے۔

مسودے کے مطابق آرمی ایکٹ کے ساتھ نیول ایکٹ اور ایئرفورس ایکٹ میں ترامیم بھی کی گئیں۔ چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، آرمی، نیوی یا فضائیہ کے سربراہوں میں سے کسی کو بھی تعینات کیا جاسکتا ہے، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی مدت تعیناتی 3 سال ہوگی، ٹرمزاینڈ کنڈیشنز وزیراعظم کی سفارش پر صدر طے کریں گے، سینیرجنرل کو بھی چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنایا جا سکتا ہے۔

نئے ایکٹ میں چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار بھی دیا گیا۔ وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت تین سال تک توسیع دے سکتے ہیں۔ چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع بھی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی، تمام سروسز چیفس کی مدت میں توسیع اور دوبارہ تقرری کی جا سکے گی، چاروں سروسز چیفس کی مدت کیلئے عمر کی حد 64 سال ہوگی۔


اپنا تبصرہ لکھیں