وزیر اعظم عمران خان نے امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ فریقین یقینی بنائیں کہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے خواہاں عناصر موقع نہ پاسکیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ‘ہم امریکا اور طالبان کے مابین دوحہ معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں، یہ معاہدہ دہائیوں پر محیط جنگ سمیٹنے اور افغان عوام کو مشکلات کی دلدل سے نکالنے کے لیے امن و مفاہمت کا پیش خیمہ ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘میرا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ کتنی ہی پیچیدہ صورتحال کیوں نہ ہو، امن کا معنی خیز دروازہ سیاسی حل ہی سے کھلتا ہے۔’
عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان، افغانستان میں قیام امن کے لیے اس معاہدے کی بقا و کامیابی میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے مکمل پرعزم اور تیار ہے۔’
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بعد ازاں معاہدے پر دستخط کی تقریب میں موجود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دوحہ معاہدہ افغانستان اور خطے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ امریکا اور طالبان کی جانب سے افغانستان میں مذاکرات اور قیام امن کے لیے اٹھایا جانے والا انتہائی اہم قدم ہے۔
وزیر خارجہ نے اُمید ظاہر کی کہ افغانستان میں موجود فریقین اس تاریخی موقع کا فائدہ اٹھائیں گے اور افغانستان اور خطے میں دیرپا امن و استحکام کے لیے جامع اور جامع سیاسی تصفیے کے لیے کام کریں گے۔
انہوں نے افغانستان میں تعمیر نو اور بحالی کے کام کے لیے بین الاقوامی برادری کی حمایت کی ضرورت پر زور دیا، علاوہ ازیں انہوں نے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے افغان حکومت کی مدد کا اعادہ کیا۔
پاکستان کی افغان امن عمل سے متعلق پاکستان کی پالیسی کے حوالے سے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امن معاہدے میں سہولت کار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کردیں اور افغانستان میں امن، استحکام اور ڈیولپمنٹ کے لیے افغان عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔
انہوں نے زور دیا کہ ‘پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن، استحکام، اخوت، جمہوری اور خوشحال افغانستان کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
مزید پڑھیں: پاکستان، افغانستان سے امریکی فوج کا ‘ذمہ دارانہ انخلا’ چاہتا ہے، وزیر خارجہ
علاوہ ازیں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے ہی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل تلاش کرنے کا خواہشمند رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں مستحکم امن اور سیکیورٹی پاکستان کے قومی مفاد میں ہے، جو وہاں اور خطے میں طویل ڈیولپمنٹ، ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔
انہیں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ امن کی وجہ سے افغان مہاجرین اپنے وطن واپس لوٹ سکیں گے۔
افغان امن عمل کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر 17 مارچ کو قومی سطح پر مکالمے کا انعقاد کیا جارہا ہے، جس میں شرکت کے لیے سیاسی جماعتوں، اراکین پارلیمنٹ، تدریس سے وابستہ افراد اور دانشوروں، میڈیا اور سول سوسائٹی کو دعوت دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ سال 2001 میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہوگئے۔
معاہدے کے مطابق طالبان، افغانستان کی سرزمین کسی بھی کالعدم گروہ یا تنظیم کو استعمال کرنے نہیں دے گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہو، جبکہ افغانستان سے امریکی اور اس کی اتحادی فوجیوں کا انخلا ہوگا۔
مزید پڑھیں: امن معاہدے سے قبل طالبان جنگجوؤں کو حملوں سے روک دیا گیا
طالبان 10 مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے جبکہ ان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ معاہدے کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اس امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کی نمائندگی کی، اس کے علاوہ لگ بھگ 50 ممالک کے نمائندوں نے بھی شرکت کی جبکہ معاہدے پر دستخط کے پیِشِ نظر طالبان کا 31 رکنی وفد بھی قطر کے دارالحکومت میں موجود تھا۔