عمران خان کےخلاف توہین عدالت کی درخواست کی جلد سماعت کی استدعا

عمران خان کےخلاف توہین عدالت کی درخواست کی جلد سماعت کی استدعا


وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں توہین عدالت اور سابق وزیراعظم عمران خان کو دارالحکومت کے ڈی چوک پر لانگ مارچ کے ذریعے امن و امان کی صورتحال خراب کرنے سے روکنے کی درخواستوں کی جلد سماعت کی پٹیشن دائر کردی۔

وزارت داخلہ کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزاد کے توسط سے دائر درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ مقدمے کی سماعت پیر سے شروع ہونے والے ہفتے سے کی جائے۔

خیال رہے کہ وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ کے 25 مئی کے احکامات کو مبینہ طور پر نظر انداز کرنے پر چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ مئی میں دیے گئے حکم پر سپریم کورٹ نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور ان کے وکیل کی جانب سے اس بات کی واضح یقین دہانیوں کے پیش نظر کہ ان کی ریلی سے سری نگر ہائی وے کو کسی قسم کی تکلیف یا بلاک کرنے یا عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور یہ کہ ریلی پرامن اور قانونی طریقے سے چلائی جائے گی، پی ٹی آئی کو سیکٹر H-9 اور G-9 کے درمیان واقع گراؤنڈ میں ایک اجتماع منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان یقین دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات کو صریح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ عدالت نے بغیر کسی شرط کے مارچ کی اجازت دی تھی۔

توہین عدالت کی درخواست میں عوام بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی۔

دوسری جانب حکم امتناع کی درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کا موجودہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف اپنی تقریروں میں اپنایا ہوا لہجہ ’انتہائی اشتعال انگیز‘ تھا، جس کا مقصد عدم اعتماد اور توہین کی حوصلہ افزائی اور بغاوت کو ہوا دینا تھا۔

پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی اس مبینہ جہاد کے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے’۔

حکومت نے مؤقف اختیار کیا ھتا کہ اگر پی ٹی آئی کے مارچ کو بلا روک ٹوک اور بے ضابطگی کے جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف پورے ملک میں سیاسی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا ہو جائے گی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں سے جڑواں شہروں کے مکینوں کی زندگیوں پر اثرات دور کرنے کی جانب مبذول ہو جائے گی۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کے ماضی کے طرز عمل، خاص طور پر 25 مئی کے واقعات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی ان کی مبینہ حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ان کے آئندہ احتجاج کے بارے میں سخت ہدایات کی ضرورت ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں