سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے سابق چیئرمین ظفر حجازی کو شریف خاندان کی زیر ملکیت شوگر ملز کے ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ کے الزام میں چھ سال قبل درج کیے گئے مقدمے سے بری کر دیا گیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی خصوصی عدالت نے ظفر حجازی کو الزامات سے بری کیا اور فیصلہ دیا کہ ایف آئی اے ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ایف آئی اے نے ظفر حجازی کے خلاف جولائی 2017 میں شریف خاندان کی چوہدری شوگر ملز (سی ایس ایم) لمیٹڈ کی انکوائری کی بندش کو بیک ڈیٹ کرنے کے الزام پر مقدمہ درج کیا تھا، یہ مقدمہ سپریم کورٹ کے حکم پر درج کیا گیا تھا جب کہ پاناما پیپرز کیس کے تین رکنی عملدرآمد بینچ نے جے آئی ٹی رپورٹ پر کارروائی کی تھی۔
جولائی 2017 میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں ایف آئی اے نے بتایا کہ ظفر حجازی نے شوگر مل کا ریکارڈ حاصل کیا اور زبانی طور پر ایس ای سی پی کے عہدیداروں ماہین فاطمہ اور علی عظیم اکرام کو عابد حسین اور طاہر محمود کی موجودگی میں مل کی تحقیقات کی بندش کو بیک ڈیٹ کرنے کا حکم دیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 14 جنوری 2013 کا نوٹ، 29 جون اور 30 جون، 2016 کو ایس ای سی پی کارپوریٹ سپرویژن ڈپارٹمنٹ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر طارق احمد نے تیار کیا اور انٹرنل آڈٹ اینڈ کمپلائنس ڈپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ماہین فاطمہ کو ای میل کے ذریعے ارسال کیا۔
اس لیے ایف آئی اے نے ظفر حجازی کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 466 اور 471 کے تحت فوجداری مقدمہ درج کیا۔
تاہم جرح کے دوران ماہین فاطمہ نے اعتراف کیا کہ ظفر حجازی نے کبھی بھی ان پر سی ایس ایم فائل بند کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا۔
اس سے قبل مارچ 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ظفر حجازی کی بریت کی درخواست خارج کردی تھی۔
درخواست میں ظفر حجازی نے الزام لگایا کہ ایس ای سی پی کے عہدیدار ماہین فاطمہ، طارق احمد، علی عظیم، طاہر محمود اور عابد حسین اس کیس میں مبینہ طور پر ملوث تھے اور انہوں نے خود کو بچانے کے لیے ان پر جھوٹا الزام لگایا۔
واضح رہے کہ مئی 2017 میں ظفر حجازی نے انکشاف کیا تھا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار نے انہیں واٹس ایپ کال کرکے ہدایت کی کہ بلال رسول کا نام جے آئی ٹی کے لیے ایس ای سی پی کے پینل میں شامل کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی ٹیم تشکیل دینے کے لیے ایف آئی اے، قومی احتساب بیورو، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹر سروسز انٹیلی جنس سے نام طلب کیے تھے۔
ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ 10 جولائی 2017 کو درج کیا گیا تھا اور انہیں 21 جولائی کو حراست میں لیا گیا تھا۔