ملک بھر میں ہونے والی موسلادھار بارشوں کے بعد سکھربیراج سے لاشیں ملنے کا سلسلہ نہ رک سکا ، گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران مزید 4 افراد کی لاشیں برآمد ہو گئیں، 4 روز میں ملنے والی لاشوں کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔
ملک میں جاری بارشوں اور سیلاب کے باعث دریائے سندھ میں سکھر بیراج کے مقام پر سے لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے اور گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سکھر بیراج کے گیٹ نمبر 31 ،گیٹ نمبر 34 ،گیٹ نمبر 48 اور گیٹ نمبر 61 سے مزید 4 لاشیں ملی ہیں جن کو نکالنے کےلیےریسکیو کا کام کیا جارہاہے۔
ایدھی سینٹر سکھر کے انچارج عرس مگسی اور فوکل پرسن گل مہر نے بتایا کہ اب تک 4 روز کے دوران سکھر بیراج سے ملنے والی لاشوں کی تعداد 19 ہوگئی ہےجن میں 7 لاشیں خواتین کی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سکھر بیراج سے نکلنے والی لاشیں پانی میں زیادہ عرصہ رہنے کی وجہ سے ناقابل شناخت ہیں، اس لیے انتظامیہ کی جانب سے یہ لاشیں لاوارث قرار دے کر تدفین کے لیے ایدھی سینٹر کے حوالے کی جاتی ہیں جن کی ایدھی سینٹر کی جانب سے تجہیز و تکفین کی جاتی ہے۔
دوسری جانب سکھر بیراج سے ملنے والی لاشوں کے بارے میں رابطہ کرنے پر ایس ایس پی سکھر سنگھار علی ملک نے بتایا کہ دریائے سندھ میں اس وقت سیلابی صورتحال ہے جس کی وجہ سے یہ لاشیں یہاں بہہ کر آئی ہیں، پانی میں زیادہ وقت تک رہنے اور گل سڑجانے کی وجہ سے ان لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی یے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سکھر بیراج پر بہنے والی لاشوں کی ویڈیو شیئر کر دی۔
ٹوئٹر پر سراج الحق کی جانب سے سکھر بیراج کی ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں بیراج میں لاشوں کو تیرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
ٹوئٹ میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ آج سکھربیراج سےگزرنا ہوا، 3 دنوں سےیہاں تین لاشیں تیر رہی ہے ، تھانہ روہڑی اور تھانہ سکھر میں حدود کےاختلاف کی وجہ سےانھیں نکالا نہیں جاسکا۔
امیر جماعت اسلامی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ کیسا خراب طرزحکمرانی اور سنگدلی ہے، مقامی لوگوں نےبتایا کہ 23 لاشیں دیکھی گئیں، صرف 6 کو نکالا جا سکا۔
سراج الحق نے اپنی ٹوئٹ میں موجودہ صورتحال کو افسوسناک اور شرمناک قرار دیا۔
بلوچستان میں بارشوں کی تباہ کاریاں
بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں مون سون بارشوں کی تباہ کاریاں جاری ہیں، صوبے کے بیشتر اضلاع میں بارشوں کے باعث پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال سے قومی شاہراہیں اور پل بہہ گئے۔
5 روز گزرے جانے کے باوجود لسبیلہ کو سندھ سے ملانے والا پل تاحال تعمیر نہ ہوسکا، کوئٹہ سبی،کوئٹہ چمن، زیارت سمیت دیگر قومی شاہرایں بھی بارش سے متاثر ہوئیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں سے اب تک صوبے میں 127 افراد جاں بحق اور 70 زخمی ہوئے، جاں بحق ہونے والوں میں 50 مرد، 31 خواتین اور 46 بچے شامل ہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران چاغی،ڈیرہ بگٹی اور مستونگ میں اموات رپورٹ ہوئی۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے میں بارشوں سے 13 ہزار 320 مکانات کو نقصان پہنچا، 9 ہزار 969 مکانات کو بارشوں سے جزوی نقصان ہوا اور 3 ہزار 351 مکانات منہدم ہوئے۔
پی ڈی ایم اے کی جانب سے متاثرہ اضلاع میں ریلیف آپریشن بھی جاری ہے، قلعہ سیف اللہ، نوشکی، جھل مسگی،قلات ،خضدار،نصیر آباد، جعفر آباد اور واشک میں امدادی سامان پہنچایا گیا۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق 17سو فوڈ پیکٹ، ایک ہزار ٹینٹ، 600 مچھر دانیاں اور 400 کمبل تقسیم کی گئیں۔
بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قلات، چمن،زیارت،مسلم باغ، سبی،مستونگ، دالبندین،خضدار،بارکھان اور لسبیلہ میں بارش ہوئی.
محکمہ موسمیات کے جاری اعداد و شمار کے مطابق قلات میں 50، چمن 26 جبکہ زیارت میں 21 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، مسلم باغ میں 10،سبی 6 جبکہ مستونگ میں 5 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔
محکمہ موسمیات کے مطابق دالبندین میں 3، خضدار میں 2 جب کہ بارکھان میں ایک ملی میٹر بارش ہوئی۔
7روز گزرنے کے بعد بھی ضلع لسبیلہ شہر اوتھل کے مقام سے پل ٹوٹنے کی وجہ سے آر سی ڈی شاہراہ ٹریفک کے لئے بند ہے جس کے باعث کوئٹہ کا کراچی سے رابطہ منقطع ہے اور سینکڑوں مال بردار اور مسافر گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔
این ایچ اے حکام کی جانب سے متبادل پل بنانے کے لیے کام جاری ہے۔
ضلع لسبیلہ کی 3 تحصیلوں تحصیل لاکھڑا ، تحصیل کنزاج اور تحصیل دریجی کا اب تک زمینی رابطہ منقطع ہے، تحصیل لاکھڑا میں اب تک سیلابی پانی میں 40 سے زاہد افراد پھنسے ہوئے ہیں، 2 روز کے دوران ان علاقوں میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے کھانے پینے کی اشیا پہنچائی گئیں، ریسکیو اور ریلیف آپریشن جاری ہے۔
اوتھل شہر میں دو ریلیف کیمپ بنائے گئے ہیں ان میں اوتھل شہر و گرد نواح متاثرہ افراد کو اس کیمپ میں رکھا گیا ہے، ضلع میں اب تک بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث 16 افراد جاں بحق ہوگئے جن میں خواتین بچے شامل ہے۔
پاک فوج، ایف سی کی سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں
دوسری جانب فوج اور ایف سی کی جانب سےملک کے مختلف سیلاب زدہ علاقوں میں فلڈ ریلیف سرگرمیاں جاری ہیں، پاک آرمی کے دستے طبی امداد فراہم کرنے اور مواصلاتی ڈھانچے کو کھولنے کے علاوہ ریسکیو، امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے مطابق مردان میں پانی نکالنے کی کوششیں کی گئیں۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی خبر کے مطابق ضلع مہمند کے مقامی نالوں میں سیلاب کی اطلاع ملی ہے۔
جنوبی پنجاب میں تمام پہاڑی ندی نالے معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں، سوائے مٹھاون، کاہا اور سانگھڑ ہل کے علاقوں کے جہاں پانی کا بہاؤ معمول سے زیاد ہے۔
مقامی کمانڈروں نے راجن پور اور ڈی جی خان کا دورہ کیا جہاں پر سیلاب متاثرین میں امدادی اشیا تقسیم کی گئیں، دونوں اضلاع میں میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں۔
بلوچستان جھل مگسی میں گندھاوا کا مکمل رابطہ بحال کر دیا گیا، امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، آرمی میڈیکل کیمپ میں 115 مریضوں کا علاج کیا گیا۔خضدار ایم 8 اب بھی منقطع ہے۔ رابطے کی بحالی پر کام جاری ہے۔
حافظ آباد میں سی ایم ایچ خضدار اور ایف سی کی جانب سے لگائے گئے فیلڈ میڈیکل کیمپ میں 145 متاثرہ افراد کا علاج کیا گیا، باباکوٹ اور گندھا کی متاثرہ آبادی کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، سیلاب متاثرین میں راشن اور پکا ہوا کھانا تقسیم کیا گیا، گندکھا میں فیلڈ میڈیکل کیمپ میں مختلف مریضوں کا علاج کیا گیا۔
چمن میں بارش نہیں ہوئی، باب دوستی مکمل طور پر فعال ہے۔
نوشکی کے علاقے میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، پکا ہوا کھانا ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو دیا گیا،3 مقامات پر تباہ ہونے والے راستے کی مرمت کر کے ٹریفک بحال کر دی گئی ہے۔
ضلع قلعہ سیف اللہ میں بارش کی اطلاع ملی، مسلم باغ خزینہ میں لگائے گئے فیلڈ میڈیکل کیمپ میں 200 سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا، گلگت بلتستان قراقرم ہائی وے سکندر آباد کے قریب 2 مٹی کے تودے گرنے کی اطلاع ہے۔
ایف ڈبلیو او کی جانب سے سڑک کو یک طرفہ ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے، ملک میں دریاؤں کی صورتحال کے مطابق اٹک، تربیلا، چشمہ ، گڈو کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔
ورسک کے مقام پر نچلا سیلاب اور دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے، باقی تمام دریا معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں، خیبر پختونخوامردان میں سب سے زیادہ 133 ملی میٹر اور مہمند میں 85 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔