اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ سابق جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش گاہ پر ان کے وکیل توفیق آصف سے ان کی ملاقات کروائی جائے۔
عدالتی حکم کے مطابق جس کمرے میں یہ ملاقات ہو وہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکلا کی ٹیم کے سوا کوئی اور موجود نہ ہو۔
یہ حکم اس وقت آیا جب توفیق آصف نے جسٹس مشیر عالم اور جسٹس یحیٰ آفریدی پر مشتمل 2 رکنی بینچ کو بتایا کہ وہ صرف عدالت عظمیٰ کے احاطے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے سلام دعا کرسکتے ہیں لیکن انٹیلی جنس ایجنسیز کے حکام کی موجودگی میں ان سے ہدایات نہیں لے سکتے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سپریم کورٹ میں لایا گیا لیکن ان کی جانب سے آزادانہ نقل و حرکت اور بنیادی حقوق کے لیے دائر درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ کے سامنے انہیں پیش نہ کیا گیا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کےوکیل کی ملاقات کا انتظام کروایا جائے گا۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے لاہور ہائی کورٹ کے25 ستمبر 2019 کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس نے ریاست کی جانب سے سیکیورٹی کے خصوصی اقدامات کے تناظر میں دائرہ اختیار کے فقدان کے باعث ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اپیل کو مسترد کردیا تھا۔
عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی درخواست میں کہا گیا کہ آزادانہ نقل و حرکت سمیت بنیادی حقوق، معقول پابندیوں کی آڑ میں کسی کی پسند یا ناپسند پر محدود یا سلب نہیں کیے جاسکتے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک صفحے کی درخواست بھی پیش کی جس میں حکومت کو انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی تا کہ وہ کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں اپنی بات کہہ سکیں۔
درخواست میں بتایا گیا کہ پٹیشنر کو عدالت کے حکم پر ان کے وکیل سے ملاقات کروانے کے لیے سپریم کورٹ کی عمارت میں لایا گیا لیکن عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وکلا سے خصوصی ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی اور ملاقات کے دوران انٹیلی جنس ایجنسی کے حکام موجود رہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے عدالت میں اپنی بات کہنے کے لیے ذاتی حیثیت میں سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت بھی مانگی اور کہا کہ آزاد حیثیت ان کا بنیادی حق ہے کہ کیوں کہ ان کی نقل و حرکت کسی قانون اور بے بنیاد الزامات کے تحت محدود نہیں کی گئی۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس سریم کورٹ میں دائر درخواست میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دعویٰ کیا کہ وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے علمبردار ہیں اور یہ ان امور سے وابستہ لوگوں کی انتھک محنت تھی کہ وہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کو پڑوسیوں اور مخالفین کی بری نظر سے محفوظ کرنے کے لیے کیے گئے اپنے کام پر فخر محسوس کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ جب وہ پاکستان آئے تھے انہوں نے جوہری منصوبے پر کام شروع کردیا تھا جبکہ اپنی حیثیت کے مطابق ذاتی سیکیورٹی کا لطف بھی اٹھایا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکار گھر کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کسی کی ان تک رسائی نہ ہو۔
درخواست کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سیکیورٹی حکام کی پیشگی منظوری کے بغیر ملک میں گھومنے پھرنے، کسی سماجی یا تعلیمی تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں، یہ صورتحال درخواست گزار کو ورچوئل قید میں رکھنے کے مترادف ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ سیکیورٹی حکام کا یہ فعل غیر قانونی ہے کیونکہ ابھی تک میرے ساتھ ایسا سلوک رکھنے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا جو اس بات کی ضمانت دیتا ہو، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں کی دوسری کوئی ذمہ داری نہیں لیکن مجھے اپنے گھر تک ہی محدود رکھ دیا گیا ہے جیسے میں قید تنہائی میں ہوں۔
ایٹمی سائنسدان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال جنوری 2004 میں شروع ہوئی جب انہیں سلامتی کے نام پر نظر بند کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کسی دوست تک رسائی نہیں تھی یہاں تک کہ وہ کچھ گھروں کے فاصلے پر رہنے والی بیٹی اور اس کے بچوں سے بھی نہیں مل سکتے تھے جبکہ بری صورتحال یہ تھی کہ وہ عدالت سے بھی رسائی نہیں کرسکتے تھے۔
درخواست میں کہا گیا کہ 25 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے ان کی درخواست کو سپریم کورٹ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق نہ ہونے پر نمٹادیا تھا۔
ایٹمی سائنسدان نے کہا کہ ملک کے لیے ان کی خدمات کو متعدد مرتبہ تسلیم کیا گیا اور انہیں مختلف ایوارڈ سے نوازا گیا لیکن ان کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا وہ آئین کے آرٹیکل 14 میں موجود ناقابل تسخیر آئینی وقار کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست کے مطابق یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بنیادی حق ہے کہ وہ ملک بھر میں آزادانہ گھومیں اور کسی بھی فرد سے ملیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا کہ انہیں مسلسل خوف میں رکھا جارہا ہے جس سے انہیں جسمانی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، وہ 84 سال کے بوڑھے شخص ہیں اور مختلف بیماریوں کا شکار ہیں لہٰذا ان کو مستقل طور پر اس طرح نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ اس سے کسی جسمانی نقصان کا خدشہ ہے۔