سندھ ہائیکورٹ کا محکمہ پولیس میں ‘چہرے کی شناخت کا نظام’ لگانے کا حکم


کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کے کرمنل ریکارڈ آفس (سی آر او) میں چہرے کی شناخت کے نظام کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ، صوبائی پولیس افسر اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ڈائریکٹر جنرل کو حکم دیا ہے کہ سی آر او کو خصوصی طور پر سروسز فراہم کی جائیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس صلاح الدین پنھور پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے رینجرز، سندھ کے ڈائریکٹر جنرل سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پولیس کی مدد سے تمام مفرور ملزمان کو عدالتوں کے سامنے لایا جائے۔

علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ سے رپورٹ طلب کرلی جس میں سوال اٹھایا گیا کہ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کس حیثیت میں صوبائی شہر میں نصب کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمروں کا انتظام سنبھال رہا ہے؟ جبکہ یہ کام مکمل طور پر سیکریٹری داخلہ کے امور میں آتا ہے۔

عدالت میں زیر سماعت اے کلاس مقدمات میں سی آر او کے انچارج، پولیس افسران اور محکمہ قانون کے ایک افسر نے رپورٹس جمع کرائی۔

اے کلاس مقدمات کے دوران معاملہ زیر بحث آیا جس میں ملزم نامعلوم یا پھر ان کی گرفتاری ناممکن ہے۔

جسٹس صلاح الدین نے سی آر او کے دائرکار پر شدید تشویش کا اظہار کیا جب ایک اہلکار نے تسلیم کیا کہ محکمہ پولیس میں کسی ویڈیو سے کسی کے چہرے کی شناخت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور یہ طریقہ کارصرف نادرا کے پاس موجود ہے جبکہ سی آر او سسٹم میں مذکورہ نظام کی سہولت کا فقدان ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ نادرا کے ساتھ ریکارڈ رکھنے کا مقصد صرف اور صرف سی این آئی سی کے اجرا تک محدود نہیں بلکہ اس کا مقصد کسی مطلوبہ شخص کی شناخت جاننا بھی تھا۔

جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ آئی جی سندھ صوبائی ہوم سکریٹری اور ڈی جی نادرا کو پابند بنائیں کہ یہ میکانزم خصوصی طور پر سی آر او کے ساتھ دستیاب ہو جس میں مجرموں کی شناخت کو یقینی بنایا جاسکے۔

بینچ نے ڈی آئی جی سی آئی اے اور اے آئی جی فرانزک کو بھی ہدایت کی کہ وہ عدالت میں معاونت کرنے والے تین وکیلوں اور ایک ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو تفصیلات فراہم کریں کہ کیا سی آر او ملزموں کی شناخت کا میکانزم فراہم کیا گیا اور ساتھ ہی فرانزک کا طریقہ بھی واضع کریں۔

عدالت نے اے آئی جی فرانزک کو بھی ہدایت کی کہ فرانزک لیبارٹریوں میں دستیاب مجرموں کے ڈی این اے کی مکمل تفصیلات درج کریں۔

واضح رہے گزشتہ سماعت میں بینچ نے ریمارکس دیے تھے کہ ‘اب وقت آگیا ہے کہ رینجرز کو اس معاملے میں اعتماد میں لیا جائے۔ ڈی جی رینجرز کو نوٹس جاری کیا جائے، امید ہے کہ گھناؤنے جرائم کے مجرموں کی نشاندہی میں رینجرز کے کردار سے مثبت نتائج سامنے آئیں گے’۔

جس کے بعد رپورٹ کے لیے کوئی بھی عدالت میں حاضر نہیں ہوا جس پر بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ دوبارہ ڈی جی رینجرز کو اس ضمن میں آرڈر سے مطلع کریں اور ڈی جی رینجرز اس بات کو یقینی بنائیں کہ پولیس کی مد سے تمام مفرور ملزمان کو عدالتوں کے سامنے پیش کریں۔

محکمہ قانون کے دو عہدیداروں نے یقین دلایا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے وضع کردہ سندھ فوجداری عدالت قواعد 2012 کے اصولوں کو شائع کرنے کے لیے تیار ہیں، جو ایس ایچ سی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں

جس کے بعد بینچ نے ایس ایچ سی کے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ وہ ان قوانین کو محکمہ قانون تک پہنچائیں جو یقینی بنائے گا کہ اس طرح کا گزٹ مقررہ وقت کے اندر شائع ہو۔


اپنا تبصرہ لکھیں