سندھ کے صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ نے 50 فیصد حاضری اور ایس او پیز کے ساتھ 23 اگست سے اسکول کھولنے کا اعلان کردیا۔
کراچی میں اجلاس کے بعد صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ آج تعلیم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا، جہاں تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے رائے لی گئی، اجلاس میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو خصوصی طور پر شریک ہوئیں اور محکمہ داخلہ کے نمائندے بھی شریک تھے۔
سردار شاہ نے کہا کہ بچوں کے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے لیے پیر (23 اگست) سے اسکول کھولنے کافیصلہ ہوا ہے، 50 فیصد حاضری کے ساتھ اسکول کھولے جائیں گے اور ایس اوپیز پر عمل لازمی قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو اسکول پیر تک اساتذہ کی 100 فیصد ویکسینیشن کا یقین دلائیں گے وہ اسکول کھول سکیں گے اور ساتھ ہی والدین کی ویکسینیشن سرٹیفکیٹ بھی اسکول میں جمع کروائیں گے جبکہ اچانک سے رینڈم پی سی آرٹیسٹ بھی کیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے 13 اگست کو ایک ورکنگ کمیٹی بھی بنائی جاچکی ہے، سلیبس اور دیگر معاملات کو بھی دیکھا جائے گا اور اس کمیٹی میں محکمہ صحت، تعلیم، داخلہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے افسران شامل ہوں گے۔
صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ دیہاتوں میں ویکسینیشن کاعمل سست ہے، اس لیے وہاں کچھ رعایت ہوگی، سرکاری ملازمین نے تنخواہ بند ہونے کے ڈر سے 100 فیصد ویکسین کروالی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 اور 10 محرم کے اثرات کا جائزہ جمعے کو لیا جائے گا۔
ملک میں یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کا آئین نہیں پڑھا، انہوں نے اپنے منشور میں کہہ دیا تھا کہ ملک میں یکسان نصاب تعلیم نافذ کریں گے۔
سردار شاہ نے کہا کہ ہم اپنے ہیروز کو پڑھا رہے ہیں، میرے لوگ روپلوکولہی مخدوم بلاول اور دودو سومرو کو پڑھنا چاہتے ہیں تو میں یہ ان کو کیوں نہ پڑھاؤں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ نے کمپلسری ایکٹ پاس کیا ہوا ہے، ہم اپنے بچوں کو سندھ پڑھانا چاہیں تو کیوں نہ پڑھائیں، حیرت ہے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اپنے حقوق دوسروں کو کیسے تفویض کر دیے۔
اپنے ایک بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اساتذہ کے متعلق میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ کورونا کے دوران تعلیم کا بہت نقصان ہوا ہے، 45لاکھ بچوں کی تعداد تھی جو گر کر اب 39 لاکھ رہ گئی ہے۔
یاد رہے کہ 8 اگست کو حکومتِ سندھ نے اپنے ماتحت تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کو 19 اگست تک بند رکھنے کا اعلان کردیا تھا اور اس حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ کورونا وائرس کی صورتحال کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: کورونا کیسز میں کمی تک سندھ میں اسکول بند رہیں گے، وزیر صحت
صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ نے کہا تھا کہ 19 اگست تک اسکولز بند رکھے جائیں گے اور اس دوران کووڈ کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا ساتھ ہی اسکول کے عملے اور اساتذہ کی ویکسینیشن یقینی بنانے کے بعد ہی انہیں تعلیمی اداروں میں آنے کی اجازت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ جو ویکسینیشن نہیں کروائیں گے ان کی تنخواہیں بند کردی جائیں گی اور کوشش کی جائے گی کہ بچوں کے لیے اسکولوں کو کھولنے میں مزید تاخیر نہ ہو۔
سندھ میں تعلیمی اداروں کی بندش
خیال رہے کہ صوبہ سندھ میں عالمی وبا کی چوتھی لہر بالخصوص ڈیلٹا قسم کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیشِ نظر عوامی سرگرمیوں پر دوبارہ پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔
23 جولائی کو صوبائی ٹاسک فورس برائے کورونا وائرس کے اجلاس میں 26 جولائی سے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم امتحانات شیڈول کے مطابق ہونے کا اعلان کیا تھا۔
بعدازاں کورونا کیسز میں زیادہ اضافے کے بعد سندھ میں یکم اگست سے 8 اگست تک سخت لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
بعدازاں گزشتہ روز نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے کراچی سمیت سندھ بھر میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کو 9 اگست کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ملک کے 13 اہم شہروں میں ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کی ہدایت کی۔
ساتھ ہی کہا گیا تھا کہ سندھ میں اسکول کھولنے اور امتحانات لینے کے حوالے سے حتمی فیصلہ صوبائی وزرائے تعلیم کے اگلے اجلاس میں کیا جائے گا۔