حیدر آباد: حکومتِ سندھ بالآخر انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے زیر نگرانی غیر جانبدار ماہرین مثلاً انٹرنیشنل واٹر مینیجمنٹ انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کے ذریعے بیراجوں سے پانی کے بہاؤ کی پیمائش پر رضامند ہوگئی۔
ایک صوبائی وزیر نے کہا کہ اس معاملے پر حکومتِ سندھ کے اعتراض کے بعد واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) اور اس کے ذیلی ادارے اس عمل سے دور رہیں گے۔
اس بات کا فیصلہ 16 جون کو اسلام آباد میں حکومتِ سندھ اور پنجاب کے نمائندوں کے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں دیگر 2 صوبوں سے ارسا اراکین بھی شریک ہوئے۔
سندھ کے سیکریٹری آبپاشی نے وفاقی سیکریٹری برائے آبی وسائل شہزاد بنگش کے 15 جون کو بلوائے گئے ورچوئل اجلاس میں شرکت کی تھی اس سے قبل وہ واپڈا کی حیثیت پر سوال اٹھانے کے بعد اجلاس میں شرکت سے انکار کر چکے تھے۔
بعدازاں انہوں نے 16 جون کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی جہاں پانی کے بہاؤ پر اٹھنے والے متنازع معاملات پر اتفاق رائے کیا گیا۔
سندھ کے وزیر آبپاشی سہیل انور سیال سے ڈان کو اس بات کی تصدیق کی کہ اتفاق رائے ہوگیا ہے اور پانی کی مناسب تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے بیراجوں پر دریا کے بہاؤ پر آزادانہ نگرانی کی اجازت دینے کی دیگر تفصیلات پیر تک طے ہوجائیں گی۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ ‘یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے سندھ دریا کی آزادانہ نگرانی کے عمل سے گریز کررہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے واپڈا کی مداخلت پر اعتراض کیا تھا کیوں کہ جب پانی کی تقسیم کی ذمہ داری ارسا کی ہے تو اس میں واپڈا کا کوئی لینا دینا نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ سیکریٹری آبپاشی نے 15 جون کے اجلاس میں بتایا کہ وہ اجلاس میں احتجاجاً صرف یہ کہنے کے لیے شرکت کررہے ہیں کہ واپڈا کا اس عمل سے کوئی لینا دینا نہیں صرف ارسا یہ کرسکتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو سندھ کے پاس مشترکہ مفادات کونسل میں جانے کا حق موجود ہے جو اس معاملے کے لیے مناسب فورم ہے۔
اس مؤقف کے پیشِ نظر سیکریٹری، 2 سینئر عہدیداران کے ساتھ 16 جون کو اسلام آباد پہنچے تا کہ ارسا کے اجلاس میں شرکت کی جاسکے۔
چنانچہ اسلام آباد میں ہوئے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ارسا اس عمل کی نگرانی کرے گی اور کوئی بھی تنازع کھڑا ہونے کی صورت میں اسے حل کرے گی۔
ارسا اس سلسلے میں بین الاقوامی ماہرین کی معاونت کے لیے واپڈا اور آئی ایس آر آئی پی کے سوا دیگر اداروں کی خدمات لے سکتی ہے۔