سانحہ مہران ٹاؤن: فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عام کامقدمہ درج، تحقیقات کا آغاز

سانحہ مہران ٹاؤن: فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عام کامقدمہ درج، تحقیقات کا آغاز


کراچی: پولیس نے کورنگی کے علاقے مہران ٹاؤن میں فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجے میں 16 افراد کی اموات کے سلسلے میں تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

حکومت سندھ نے تمام جاں بحق افراد کے لواحقین کو 10لاکھ روپے معاوضے کی ادائیگی کا اعلان کیا ہے۔

علاوہ ازیں ایڈمنسٹریٹر کراچی اور حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے صنعتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے تمام رہائشی پلاٹس کی فہرست طلب کرلی۔

ڈپٹی کمشنر کورنگی کی تیار کردہ رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ ہنگامی اخراج کا راستہ نہ ہونے اور عمارت کی بے ڈھب تعمیر کے باعث ورکرز دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔

عمارت اور فیکٹری کے مالکان کے خلاف قتل عام کا مقدمہ

سپرنٹنڈنٹ پولیس لانڈھی نواز چاچڑ نے بتایا کہ پولیس نے عمارت کے مالک فیصل، بی ایم لگیج فیکٹری کے مالک علی، مینیجر عمران زیدی، سپروائزر ظفر اور ریحان اور چوکیدار سید زرین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک پولیس افسر کے ذریعے ریاست کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 (قتل عام) اور دفعہ 34 (مشترکہ ارادے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

انہوں نے بتایاکہ واقعے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 16 ہے اور مقدمے کے اندراج کے باوجود اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکی۔

ساتھ ہی ایس پی نے یہ بھی بتایا کہ فرانزیک ٹیم نے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے جائے وقوع کا دورہ کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ہلاکتیں عمارت کی بالائی منزل پر ہوئی جہاں ہنگامی اخراج کا کوئی راستہ نہ تھا۔

عینی شاہدین اور علاقہ مکینوں نے پولیس کو بتایا کہ انہوں نے چوکیدار سے کہا تھا کہ لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے عمارت کی دوسری منزل کا تالا کھول دے۔

ایف آئی آر کے مطابق عمارت اس انداز میں تعمیر کی گئی تھی کہ ہنگامی صورتحال میں کوئی باہر نہیں جاسکتا تھا جبکہ نہ ہی کوئی ہنگامی الارم کا سسٹم موجود تھا۔

دوسری جانب جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے بتایا کہ واقعے میں زخمی ہونے والے 3 افراد کو علاج کے بعد گھر بھیج دیا گیا جبکہ چوتھے زخمی کا مزید علاج جاری ہے۔

ہنگامی اخراج کا کوئی راستہ موجود نہیں تھا، رپورٹ

ڈپٹی کمشنر کورنگی کی جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ ابتدائی تحقیقات اور بیانات کے مطابق مزدوروں کی ہلاکتیں ہنگامی اخراج کا راستہ نہ ہونے، عمارت کی تعمیر مناسب نہ ہونے کے باعث دم گھٹنے سے ہوئیں۔

تحقیقات کے لیے پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج اپنے قبضے میں لے لی ہے۔

ساتھ ہی علاقے کے سروے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں جبکہ فیکٹری آئندہ احکامات تک کے لیے سیل کردی گئی ہے۔

فیکٹریوں کے معائنے کا حکم

دوسری جانب ایڈمنسٹریٹر کراچی نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے)، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(کے ڈی اے)، میونسپل کمشنر افضل زیدی، کے ایم سی کے چیف فائر افسر اور لیبر ڈپارٹمنت کے نمائندوں کےساتھ میٹنگ کی۔

انہوں نے کے ڈی اے سربراہ کو ہدایت کی کہ مہران ٹاؤن میں رہائشی پلاٹوں کا صنعتی استعمال کرنے والوں کی فہرست فراہم کی جائے اور ایس بی اے کی اجازت کے بغیر اس قسم کے یونٹس کا معائنہ کرنے کا بھی عزم ظاہر کیا۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ تمام ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنروں پر مشتمل معائنہ کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو فیکٹریوں میں آتشزدگی کی روک تھام کے اقدامات کا جائزہ لیں گی اور مناسب اقدامات نہ کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔


اپنا تبصرہ لکھیں