ریونیو 29فیصد اضافے سے 4.4کھرب روپے تک پہنچ گیا

ریونیو 29فیصد اضافے سے 4.4کھرب روپے تک پہنچ گیا


اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے مرتب کردہ عارضی اعدادوشمار کے مطابق ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں 4.382 کھرب روپے اکٹھا کیے جو کہ 4.134 کھرب روپے کے ہدف سے 248 ارب روپے زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 21-2020 کی اسی مدت میں 3.394 کھرب کے محصولات کی وصولی کے مقابلے میں مالی سال 22 میں جولائی تا مارچ 29.1 فیصد اضافہ ہوا، یہ نمو موجودہ حکومت کو پیٹرولیم کی قیمتوں میں سبسڈی دینے، بجلی کی قیمتوں میں کمی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے اور صنعتوں پر ٹیکس لگانے میں مراعات کی فراہمی میں مدد فراہم کرے گی۔

مارچ میں محصولات کی وصولی ہدف 29 ارب روپے سے کم ہو کر 575 ارب روپے رہ گئی جبکہ اس ماہ کے لیے 604 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، محصولات کی وصولی گزشتہ سال کے 477 ارب روپے سے 20.5 فیصد بڑھ کر 575 ارب روپے ہو گئی۔

مارچ کے مہینے میں محصولات کی وصولی میں کمی آنا شروع ہو گئی، اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ محصولات کی وصولی ناصرف ہدف سے کم ہوئی بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں وصولی میں نسبتاً کم اضافہ ہوا۔

ایف بی آر کے ایک باضابطہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار تمام پی او ایل مصنوعات پر سیلز ٹیکس کو صفر کر دیا گیا ہے جس کی مارچ 2022 میں ٹیکس باڈی کو 45 ارب کی لاگت آئی، کیڑے مار ادویات، ٹریکٹر، گاڑیاں اور تیل اور گھی 18 ارب روپے ماہانہ آتا ہے۔

اسی طرح دواسازی کی مصنوعات پر زیرو ریٹنگ کی وجہ سے مارچ کے مہینے میں ایف بی آر کو سیلز ٹیکس کی مد میں 10 ارب روپے کا نقصان ہوا، اس طرح مجموعی طور پر ان امدادی اقدامات سے مارچ 2022 کے دوران آمدن پر تقریباً 73 ارب روپے کا اثر پڑا ہے۔

مزید براں سیاسی غیر یقینی صورتحال اور درآمدی دباؤ نے بھی مارچ کے دوران محصولات کی وصولی پر منفی اثر ڈالا۔

حکومت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ ایف بی آر کا نیا ریونیو ہدف 6.1 کھرب روپے ہوگا، بجٹ کے خسارے کو ایک مقام پر رکھنے کی درخواست پر اس ہدف میں اوپر کی طرف نظر ثانی کی گئی، حکومت نے رواں سال کا بجٹ تیار کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو مالی سال 22 میں 5.829 کھرب روپے بڑھانے کی یقین دہانی کرائی تھی جہاں اس سے قبل مالی سال 21 میں 4.721 کھرب روپے جمع کیے گئے تھے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ 343 ارب روپے کا استثنیٰ واپس لینے اور گاڑیوں، موبائل فونز اور تفریح ​​پر ٹیکس کی شرحوں میں اضافے جیسے کئی دیگر اقدامات موجودہ تخمینوں میں آمدنی میں اضافہ کریں گے۔

ریفنڈز اور ریبیٹس کی ادائیگیوں سمیت مجموعی وصولی جو کہ جولائی تا مارچ مالی سال 21 کے دوران 3.577 کھرب روپے سے بڑھ کر مالی سال22 کے 9ماہ میں 4.611 کھرب ہو گئی ہے۔

جولائی تا مارچ مالی سال 22 کے دوران ادا کیے گئے ریفنڈز کی رقم 229 ارب روپے تھی جو گزشتہ سال ادا کیے گئے 183 ارب روپے کے مقابلے میں 25 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتی ہے، اسی طرح مارچ کے دوران تقسیم کیے گئے ریفنڈز کی رقم 31.9 ارب روپے تھی جو کہ 2021 کے اسی مہینے کے مقابلے میں 21.3 فیصد زیادہ ہے جب ریفنڈز 26.3 ارب روپے تھے، یہ اقدام صنعت میں لیکویڈیٹی کی کمی کو روکنے کے لیے ریفنڈز کو تیز کرنے کے ایف بی آر کے عزم کا عکاس ہے۔

بڑھتے ہوئے درآمدی بل کے ساتھ قانونی ذرائع پر اسمگلنگ کا شکار اشیا کی درآمدات میں اضافے کے ساتھ مالی سال 22 کے 9ماہ کے دوران مجموعی کسٹمز کی وصولی 728ارب روپے رہی جوکہ گزشتہ سال 547ارب تھی جو کہ 33 فیصد کی بھاری نمو کی نشاندہی کرتی ہے۔

مالی سال 22 کے ابتدائی 9ماہ کے دوران مجموعی انکم ٹیکس کی وصولی 1.58کھرب روپے رہی جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 1.26کھرب جمع کی گئی تھی جو 25.4فیصد کی نمو کو ظاہر کرتی ہے۔

دریں اثناء مجموعی سیلز ٹیکس کی وصولی گزشتہ سال کی اسی مدت میں 1.57 کھرب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر 2.05 کھرب روپے تک پہنچ گئی ہے جو 30.5 فیصد کی نمو کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ نمو ایندھن کی قیمتوں میں اب تک کے سب سے زیادہ اضافے، درآمدات میں اضافے اور زیر جائزہ مدت کے دوران معاشی سرگرمیوں کے احیا کے نتیجے میں ہوئی۔

فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مجموعی وصولی گزشتہ سال کے 196 ارب روپے کے مقابلے میں 14.8 فیصد بڑھ کر 225 ارب روپے ہو گئی ہے۔

ایف بی آر کے بیان کے مطابق حکومت کی جانب سے عام آدمی کو مختلف ضروری اشیا پر ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر ریلیف دینے کے باوجود محصولات کی وصولی میں بے مثال اور مسلسل ترقی کی رفتار حاصل کی گئی ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں