وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ جب تک نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی نہیں ہوتی تب تک موجودہ چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ نیب قانون کے معاملے پر اپوزیشن نے حکومت کے ساتھ سیاست کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘نیب ترامیم میں اپوزیشن اپنی 34 ترامیم لے آئی اور بدقسمتی سے بیوروکریسی کے معاملے پر اپوزیشن آڑے آگئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اپوزیشن سیاست میں پڑگئی جس کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کا موڈ بدل گیا’۔
انہوں نے کہا کہ عام خیال تھا کہ نیب قوانین سے کاروباری برادری اور بیوروکریسی تنگ ہورہی تھی، یہ دونوں ملک کے بہت اہم اثاثے ہیں جنہیں ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسی ترامیم لائی جائیں کہ ٹیکس کے تمام معاملات ایف بی آر دیکھے۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اگر کوئی پبلک آفس ہولڈر نہ ہو تو وہ نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے طریقہ کار میں غلطی کی ہے اور اس کی کوئی بدنیتی نہیں تھی اور نہ ہی اس کوئی کوئی پیسے کمائے یا اثاثے بنائے تو اسے بھی نیب کے دائرہ اختیار سے نکالا جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ طے کیا گیا ہے کہ کوئی بھی موجودہ ڈسٹرکٹ جج ہے یا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج ہے، وہ نیب کے لیے کوالیفائی کرے گا اور اس کی تعیناتی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت کے ساتھ ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اگر کوئی ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ، اسپیشل کورٹ کا جج ہو اور اس کی عمر 68 سال سے کم ہو تو وہ چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت کے بعد تعینات کیا جاسکے گا۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی صدر پاکستان وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد کریں گے، وزیر اعظم کی اپوزیشن لیڈر سے مشاورت اس طرح ہو نہیں پا رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مشاورت ہوجاتی ہے تو پھر تعیناتی کی راہ ہموار ہوگی تاہم اگر یہ مشاورت ناکام ہوجاتی ہے تو پارلیمانی کمیٹی قائم ہوگی جو اس معاملے کو دیکھے گی اور نیب چیئرمین کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کیس جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک نئے چیئرمین کی تعیناتی نہیں ہوتی تب تک پرانے چیئرمین کام کرتے رہیں گے اور ان کے پاس تمام اختیارات ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع نہ کرنے کا لفظ نئے آرڈیننس سے ختم کردیا گیا ہے، پرانے چیئرمین نیب کو بھی ان کی قابلیت کے حساب سے دوبارہ تعینات کرنے پر بھی غور کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پراسیکیوٹر جنرل کا کردار ہم بڑھا رہے ہیں، ان سے نیب کا ادارہ بھی خود مختار تجاویز لے گا۔
آرڈیننس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ کو ضمانت کا اختیار دیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی کے بارے میں بھی تبدیلی لائی گئی ہے، پہلے رضاکارانہ واپسی کا اختیار اپنانے والا دوبارہ نوکری پر لگ جاتا تھا تاہم اب اسے پلی بارگین کی طرح 10 سال کے لیے پابندی کا سامنا کرنا ہوگا اور وہ کسی نوکری پر نہیں لگ سکے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس ترمیم کا اطلاق موجودہ سابقہ اور مستقبل کے تمام رضاکارانہ واپسی کا اختیار کرنے والے پبلک آفس ہولڈرز پر ہوگا۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کیس ٹرائل میں جدید ڈیوائسز کا استعمال کیا جائے گا شواہد کو ریکارڈ کرنے کے لیے، کبھی کبھی چند کیسز میں 50 ہزار دستاویزات بھی پیش کرنے ہوتے ہیں جس میں بہت ٹائم لگے گا تاہم اب آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ بینک یا مالیاتی ادارے اگر کوئی فیصلہ کرتی ہیں تو اس پر کوئی کارروائی گورنر کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔
آرڈیننس کا دوسرا ایکٹ بھی آئے گا، فواد چوہدری
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے شہباز شریف سے مشاورت نہیں کریں گے، ہمارا واضح موقف ہے کہ اپوزیشن سے تو مشاورت ہوگی لیکن شہباز شریف سے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد نیب مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے، نیا مجوزہ قانون اس وقت قانون کی شکل اختیار کرے گا جب صدر مملکت اس پر دستخط کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کا دوسرا حصہ ایکٹ بھی آئے گا، ہم آرڈیننس پر اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کریں گے، اپوزیشن کو دعوت دے رہے ہیں کہ اگر وہ مزید ترامیم یا اپنی رائے دینا چاہتی ہے تو ہمیں فراہم کر دے، ہم پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت ریفارمز لائیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم نے نیب سے نجی اور بینکنگ تنازعات اور ٹیکس کو نکال دیا ہے، نیب کی توجہ اب بڑی کرپشن پر ہوگی، نیب کو بڑی مچھلیوں پر نظر رکھنی ہے، اس پر کیسز بننے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے، ان کا طریقہ کار تبدیل کر کے انہیں مضبوط کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن کی مضبوطی کے لئے پراسیکیوٹر جنرل کے آفس کو بھی مضبوط کیا گیا ہے، اب پراسیکیوٹر جنرل جو ریفرنس فائل کریں گے وہ ذمہ دار ہوں گے کہ اس میں سزا بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ وزارت قانون نے پہلی مرتبہ ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دیا ہے۔