بھارت کے لوک سبھا انتخابات میں دہشت گردی کے الزامات میں قید دو امیدواروں نے کامیابی حاصل کر کے ایک غیر معمولی صورتحال پیدا کردی۔
انتخابات کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں 18ویں لوک سبھا تشکیل پائے گی، جبکہ قانون قید میں موجود فاتح امیدواروں کو نئے ایوان کی کارروائیوں میں شرکت سے روکے گا جبکہ ان کے پاس آئینی حق ہے کہ وہ رکن پارلیمنٹ کے طور پر حلف اٹھائیں۔
خالصتان تحریک کے حامی سکھ رہنما امرت پال سنگھ نے پنجاب کی خدو صاحب نشست جیت لی، جبکہ حریت پسندوں کی مالی معاونت کے الزامات کا سامنا کرنے والے شیخ عبدالرشید، جنہیں انجینئر رشید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے جموں و کشمیر کی بارہمولہ نشست سے کامیابی حاصل کی۔
انجینئر رشید 9 اگست 2019 سے حریت پسندوں کی مالی معاونت کے الزامات کے تحت تہاڑ جیل میں قید ہیں جبکہ امرت پال سنگھ کو اپریل 2023 میں قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور آسام کی ڈبرو گڑھ جیل بھیج دیا گیا۔
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا یہ قید میں موجود نومنتخب رکن پارلیمنٹ حلف اٹھا سکیں گے؟ اور اگر ہاں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے؟
آئینی ماہر اور سابق لوک سبھا سیکریٹری جنرل پی ڈی ٹی آچاری نے ایسے معاملات میں آئینی دفعات کی پیروی کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ رکن پارلیمنٹ کے طور پر حلف اٹھانا ایک آئینی حق ہے، لیکن چونکہ وہ اس وقت جیل میں ہیں، انجینئر رشید اور امرت سنگھ کو حلف برداری کی تقریب کے لیے پارلیمنٹ میں لانے کے لیے حکام سے اجازت لینی ہوگی جبکہ انہیں حلف اٹھانے کے بعد واپس جیل جانا ہوگا۔
قانونی نکات کو مزید واضح کرتے ہوئے پی ڈی ٹی آچاری نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 101(4) کا حوالہ دیا، جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اراکین کی پیشگی اجازت کے بغیر غیر حاضری سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ حلف اٹھانے کے بعد وہ اسپیکر کو ایک خط لکھیں گے جس میں ایوان کی کارروائیوں میں شرکت نہ کر سکنے کی اطلاع دیں گے۔ اسپیکر ان کی درخواستوں کو اراکین کی غیر حاضری کی کمیٹی کے حوالے کریں گے۔
انکا کہنا تھا کہ کمیٹی سفارش کرے گی کہ آیا قید میں موجود رکن پارلیمنٹ کو ایوان کی کارروائیوں سے غیر حاضر رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے یا نہیں۔ اس کے بعد اسپیکر سفارش کو ایوان میں ووٹنگ کےلیے پیش کریں گے۔
سابق سیکریٹری لوک سبھا نے کہا کہ اگر انجینئر رشید یا مسٹر سنگھ کو دو سال یا اس سے زیادہ کی قید کی سزا سنائی جاتی ہے، تو وہ فوری طور پر لوک سبھا کی نشست سے محروم ہو جائیں گے۔
سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کے مطابق، ایسی صورتحال میں ایم پیز اور ایم ایل ایز کو نااہل قرار دیا جائے گا۔ اس فیصلے نے نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 8 (4) کو منسوخ کر دیا، جو پہلے سزا یافتہ ایم پیز اور ایم ایل ایز کو اپنی سزاؤں کے خلاف اپیل کرنے کے لیے تین ماہ کی مہلت دیتا تھا۔