نئے مالی سال کے بجٹ کے بعد پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال اور اس میں عائد کیے گئے نئے ٹیکسز کے پیش نظر ڈالر کی قدر میں مزید ایک روپے 85 پیسے کا اضافہ ہوگیا، جبکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کو بھی بے انتہا مندی کا سامنا ہے جہاں 100 انڈیکس ایک ہزار پوائنٹس سے زائد گر گیا۔
کاروباری ہفتے کے آغاز پر انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں ایک روپے 85 پیسے اضافہ دیکھا گیا، جس کے بعد ڈالر 204 روپے کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر آگیا ہے۔
پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان نے ڈالر کی اونچی اڑان کو رواں مالی سال کے اختتام سے منسلک کیا ہے، انہوں نے کہا کہ روپے کے مقابلے ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ جون میں مالی سال 22-2021 کا اختتام اور تیل کے درآمدی بل کی ادائیگیاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ حتمی مراحل میں پہنچنے تک روپے پر دباؤ جاری رہ سکتا ہے جبکہ اگلے مالی سال کے لیے درآمدات اور برآمدات کے جو اہداف رکھے گئے ہیں ان میں خاصا فرق ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ سال بھی اس فرق کو کم کرنے کے لیے مزید قرض لینے کی ضرورت پیش آئے گی۔
ملک بوستان کے مطابق بینکاری کے شعبے میں ڈالر کے سٹہ باز بھی میں سرگرم ہیں اور انہوں نے تجویز پیش کی کہ ڈالر کی فاروڈ ٹریڈنگ پر پابندی عائد کرکے روپے کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔
کرنسی ڈیلر ظفر پراچا نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جون میں مالی سال اختتام پذیر ہونے پر بیرونی کمپنیاں کا اپنا منافع باہر بھیج رہی ہیں جبکہ برآمد کنندگان بھی زائد منافع کے سبب غیر ملکی زرمبادلہ ملک میں نہیں لارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سرگرمیوں کے سبب ڈالر کی طلب اور رسد میں فرق پیدا ہوگیا ہے، اسٹیٹ بینک کو چاہیے کہ وہ برآمد کنندگان کو برآمدی آمدنی ملک میں لانے کا پابند کریں تاکہ ڈالر کی سپلائی بڑھ سکے۔
اسٹاک مارکیٹ میں 1000 پوائنٹس سے زائد کی کمی
دوسری جانب کاروباری ہفتے کے پہلے روز کے آغاز سے ہی کے ایس ای 100 انڈیکس کمی دیکھی گئی، تجزیہ کاروں نے اس کمی کو آئندہ مالی کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے شعبہ بینکاری پر ٹیکسز سے منسوب کیا ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی ویب سائٹ کے مطابق 3 بجے تک انڈیکس میں ایک ہزار 16.79 پوائنٹس یا 2.42 فیصدکی کمی دکھنے میں آئی جس کے بعد 100 انڈیکس 42 ہزار 69.65 پوائنٹس پر آگیا۔
کاروبار کے آغاز پر ہی انڈیکس میں 300 سے زائد پوائنٹس کمی دیکھی گئی تھی اور 11 بجکر 25 تک مارکیٹ 718 یا 1.71 فیصد پوائنٹس گنواں بیٹھی تھی۔
گزشتہ سیشن کے دوران 100 انڈیکس 42 ہزار 15 پوائنٹس پر ٹریڈ کر رہا تھا۔
انٹر مارکیٹ سیکیورٹی کے ریسرچ ہیڈ رضا جعفری نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر کے شیئرز میں کمی کی وجہ سے آج اسٹاک مارکیٹ دباؤ کا شکار ہے، خیال رہے بینکاری انڈیکس کا سب سے بڑا شعبہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ شعبے پر ٹیکسز میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے، نئے بجٹ میں مشترکہ فنڈز میں دستیاب کریڈٹ اور لائف انشورنس پر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے جس کے سبب خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے‘۔
عبا علی حبیب سیکیورٹیز کے ریسرچ ہیڈ سلمان نقوی کا کہنا تھا کہ بینکاری کے شعبے میں ٹیکسز کے اضافے کے سبب مندی کا رجحان دیکھا جارہا ہے اور مارکیٹ پر اس کا واضح اثر دکھائی دے رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے نئے بجٹ میں تعمیراتی شعبے میں مزید ٹیکسز شامل کیے ہیں جو سیمنٹ اور اسٹیل کے شعبے میں شیئرز کی کمی کا سبب بن رہے ہیں۔
سلمان نقوی نے مندی کے رجحان کو وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے بیان سے منسلک کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) ناخوش ہے‘۔
پوسٹ بجٹ نیوز بریفنگ میں وزیر خزانہ نے مزید سخت فیصلوں سے متعلق بات کرتے ہوئے آئندہ بجٹ میں انکم ٹیکس پر ریلیف ختم کرنے کا اشارہ دیا اور کہا کہ آئی ایم ایف زیادہ ریونیو کا مطالبہ ختم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سلمان نقوی نے کہا کہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ بصورت دیگر بجٹ اتنا برا نہیں تھا کہ صرف کے ایس سی 100 انڈیکس کے گرنے کا باعث بنا اور اسے ’غیر جانبدار سے مثبت‘ کے طور پر دیکھا گیا۔
عارف حبیب کاپوریشن کے احسن محنتی نے بھی اسی طرح کے نظریات کا تبادلہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں بلیو چپ کارپوریٹس، بینکنگ سیکٹر پر ٹیکس میں اضافہ اور مشترکہ کریڈٹ اور پینشن کے شیئرز میں ٹیکسز کی کمی کے سبب اسٹاک مارکیٹ دباؤ کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عالمی ایکویٹی سیل پر ادارہ جاتی فروخت اور خام تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی نے مندی کے رجحان کو فروخت دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے‘۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے ان بینکوں کے لیے ونڈ فال گین ٹیکس کو 39 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کردیا ہے جو سرکاری سیکیورٹیز میں بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے محفوظ منافع کما رہے تھے۔
خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کم مدت میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرض پروگرام کے ممکنہ طور پر دوبارہ شروع ہونے پر حصص کی مارکیٹ گزشتہ ہفتے قدرے مثبت نوٹ پر بند ہوئی تھی۔