ملک کی درآمدات میں برآمدات کے مقابلے تقریباً تین گنا اضافے کے باعث رواں مالی سال کے دوسرے ماہ میں تجارتی خسارے میں 133 اضافہ دیکھنے میں آیا۔
عبوری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجارتی خسارے میں الٹا رجحان مسلسل دوسرے ماہ دیکھا گیا اور یہ گزشتہ سال اگست میں 1.74 ارب ڈالر کے مقابلے بڑھ کر گزشتہ ماہ 4.05 ارب ڈالر ہوگیا۔
تجارتی خسارے سے بیرونی پہلو پر دباؤ پڑسکتا ہے، تاہم سرکاری عہدیداران کا ماننا ہے کہ ترسیلات زر میں اضافے، برآمدات میں اضافے اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے دباؤ بڑی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق بڑھتا ہوا درآمدی مالی سال 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ کو 10 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
مالی سال 2018 میں تجارتی خسارہ تاریخ میں سب سے زیادہ 37.7 ارب ڈالر ہوگیا تھا، تاہم حکومتی اقدامات کے باعث مالی سال 2019 میں یہ کم ہو کر 31.8 ارب ڈالر اور مالی سال 2020 میں 23.183 ارب ڈالر رہ گیا تھا۔
تاہم پھر رجحان الٹا ہوگیا اور مالی سال 2021 میں تجارتی خسارہ 30.796 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔
تجارتی فرق گزشتہ سال دسمبر سے بڑھتا جارہا ہے، جس کی بڑی وجہ درآمدات میں تیزی سے اضافہ اور برآمدات کی نمو میں سست رفتار ہے۔
اگست میں درآمدی بل 89.9 فیصد بڑھ کر 6.313 ارب ڈالر ہوگیا جو گزشتہ سال اسی مہینے میں 3.324 ارب ڈالر تھا۔
ماہانہ بنیاد پر درآمدی بل میں 12.7 فیصد اضافہ ہوا۔
مالی سال 2021 میں درآمدی بل مالی سال 2020 میں 44.574 ارب ڈالر کے مقابلے 25.8 فیصد بڑھ کر 56.091 ارب ڈالر ہوگیا تھا۔
وزیر اعظم کے مشیر تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے ڈان کو بتایا کہ وہ بڑھتی ہوئی برآمدات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر برآمدات خام مال اور کیپیٹل سامان پر مشتمل ہے کیونکہ صنعتیں اپنی پوری صلاحیت سے کام کر رہی ہیں۔
حکومت نے ملک میں صنعت کاری کو فروغ دینے کے لیے گزشتہ دو سالوں کے دوران خام مال اور کیپیٹل اشیا پر ٹیرف کو زیادہ سے زیادہ معقول بنایا ہے۔
مشیر تجارت نے کہا کہ ‘یہ گیم چینجر ثابت ہوگا’۔
ان کا کہنا تھا کہ سستی برآمدات کی وجہ سے یہ ملک کی تاریخ کا خاموش انقلاب ہے۔
عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 628 کاروبار نے ٹیمپریری اکنامک ری فنانس فیسیلٹی کے تحت نئے کاروبار یا موجودہ کاروبار کو توسیع دینے کے لیے بینکوں سے ار یا موجودہ کاروبار کو توسیع دینے کے لیے بینکوں سے 435.7 ارب ڈالر کے رعایتی قرضے حاصل کیے۔
انہوں نے کہا کہ برآمدات کا ایک بڑا حصہ ٹیکسٹائل، چمڑے، کیمیکلز اور دیگر سے متعلق مشینری کی درآمد پر مشتمل ہے، کئی مصنوعات کی مشینری درآمد کی گئی ہے اور یہ معیشت کے لیے مثبت اشارہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے درآمدی بل بڑھا ہے کیونکہ مقامی مارکیٹ میں توانائی کی طلب زیادہ ہے۔
عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ بیرونی پہلو پر دباؤ جھیلنے کے لیے حکومت کے پاس بیک اَپ منصوبہ ہے۔
درآمدی بل میں اضافے کی وجہ سے وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کو ریونیو اکٹھا کرنے میں بھی مدد ملی ہے اور صرف اگست میں گزشتہ سال کے اسی ماہ کی نسبت کسٹمز نے 67 فیصد زیادہ ریونیو اکٹھا کیا۔
سالانہ بنیاد پر برآمدات میں اگست میں 42.5 فیصد اضافہ ہوا اور یہ گزشتہ سال اسی ماہ میں 1.584 ارب ڈالر کے مقابلے 2.257 ارب ڈالر ہوگئیں۔
عبدالرزاق داؤد نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘میں برآمد کنندگار پر زور دیتا ہوں کہ وہ ہمارا ہدف حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں دوگنی کر دیں’۔