ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے دوران صبح مقامی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 1.04 روپے کی کمی واقع ہوئی۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے اشتراک کردہ ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی روپیہ صبح 11:13 بجے کے قریب 220.75 روپے فی ڈالر پر ٹریڈ ہو رہا تھا، یوں گزشتہ روز 219.71 روپے پر بند ہونے کے بعد اس کی قدر میں مزید 0.47 فیصد کی کمی ہوئی۔
اسحٰق ڈار کے بطور وزیر خزانہ تقرر کے اعلان کے بعد سے روپے کی قدر میں بہتری کا شروع ہونے والا 13 روزہ سلسلہ 12 اکتوبر کو اس وقت تھما جب ڈالر کی قدر میں دوبارہ معمولی اضافہ دیکھا گیا۔
ان 13 سیشنز میں امریکی کرنسی کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تقریباً 22 روپے یا 10.1 فیصد اضافہ ہوا، تاہم اس رجحان کے پلٹنے کے بعد سے روپے کی قدر میں گزشتہ پانچ سیشنز میں 1.92 روپے یا 0.88 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
ٹریس مارک میں ریسرچ کی سربراہ کومل منصور نے روپے کی گراوٹ کی وجہ ملک کے غیر ملکی ذخائر کی ‘مسلسل کمی’ کو قرار دیا، جو 7 اکتوبر کو ختم ہونے والے ہفتے میں تین سال کی کم ترین سطح پر آگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے تبادلے بھی منفی ہیں اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی کمزور لیکویڈیٹی کو ظاہر کرتے ہیں اور پاکستان سی ڈی ایس (کریڈٹ ڈیفالٹ سویپس) بھی بڑھ رہے ہیں۔
کومل منصور نے کہا کہ تجارتی خسارے میں کمی اور روپے کی قدر کم ہونے پر اسحٰق ڈار کے تبصرے نے مقامی کرنسی کی حمایت کے لیے ایک کیس بنایا، لیکن اب بھی انٹربینک اور اوپن مارکیٹ دونوں میں ڈالر کی شدید طلب ہے جس سے روپیہ دباؤ میں رہے گا۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے بھی ایسا ہی خیال ظاہر کیا اور کہا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی شدید قلت ہے۔
انہوں نے کہا کہ گرے مارکیٹ میں ڈالر کے نرخ بہت زیادہ ہیں، تقریباً 230 سے 230 روپے فی ڈالر، جبکہ پشاور اور افغانستان میں یہ نرخ بالترتیب 235 روپے اور 245 روپے فی ڈالر ہیں، لہٰذا لوگ قانونی طریقے سے ایکسچینج کمپنیوں سے رابطہ نہیں کر رہے۔
انہوں نے روپے کی قدر میں کمی کے چند دیگر عوامل کا بھی حوالہ دیا، جن میں ترسیلات زر اور ذخائر میں کمی اور موڈیز کی انویسٹر سروس کی جانب سے ملک کی خودمختار کریڈٹ ریٹنگ میں کمی شامل ہے۔