سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں خواتین کی مساوی نمائندگی کے لیے آئین میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے۔
آئینی ترمیم کے مطابق الیکشن کمیشن کے 4 ارکان میں سے دو رکن خواتین ہوں گی۔
بیرسٹر سید علی ظفر کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں آئین میں اہم ترامیم پر بات چیت کی گئی اور بالآخر کمیشن کے نئے عمل کی منظوری دی گئی۔
اس سے قبل یہ تجویز دی گئی تھی کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کی تعداد 4 سے بڑھا کر 8 کر دی جائے تاکہ مردوں اور عورتوں کی نمائندگی مساوی بنیاد پر ہو۔
بعدازاں اکثریت کی رائے کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کی تعداد 4 ہی ہوگی، بات چیت کے بعد سینیٹرز نے اس بات پر اتفاق کیا کہ الیکشن کمیشن میں مردوں اور عورتوں کی مساوی نمائندگی ہو گی۔
اس کے لیے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہر صوبہ باری باری ایک مرد اور ایک خاتون رکن نامزد کرے گا تاکہ کمیشن میں 2 مرد اور 2 خواتین رکن ہوں۔
اجلاس کے آغاز میں سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین نے مشورہ دیا کہ صرف الیکشن کمیشن ہی میں نہیں بلکہ تمام شعبوں میں مردوں اور خواتین کی نمائندگی برابر ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پالیسی کم از کم ان اداروں پر لاگو ہونی چاہیے جہاں کئی خواتین مختلف شعبوں میں مہارت رکھتی ہیں۔
خواتین کے حوالے سے ایک اور تاریخی فیصلہ کیا گیا جس میں کمیٹی کی اکثریت نے اتفاق کیا کہ قومی اسمبلی میں اسلام آباد سے کم از کم ایک مخصوص نشست لازمی ہونی چاہیے۔
بیرسڑ سید علی ظفرکا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق تمام صوبوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں موجود ہیں لیکن ایوان میں اسلام آباد کی نمائندگی کے لیے خواتین کی ایک بھی نشست نہیں ہے حالانکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان جاری سیاسی کشمکش پر سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی جانب سے بل پیش کیا گیا تاکہ موضوع کے دائرہ کار میں اضافہ کیا گیا ہے اور یہ آئین کی ’کنکرنٹ لسٹ‘ میں آتا ہے۔
سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مختلف شعبہ جات جیسے فیملی کے قانون، ثالث، معاہدے کا ایکٹ، حدبندی اور سول پروسیجر کوڈ میں قانون میں ہم آہنگی ضرورت ہے اور ان موضوعات کے مطابق انہیں آئین کی ’کنکرنٹ لسٹ‘ میں شامل کیا جائے تاکہ وفاقی اور صوبائی اراکین اسمبلی اس کی بنیاد پر قانون بنا سکیں ۔
کمیٹی ممبران کی اکثریت نے آئین میں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔
ہائی کورٹ بینچز
سینیٹ قائمہ کمیٹی اجلاس میں ہائی کورٹ کی مستقل بینچز کے حوالے سے ایک اور مسئلہ اٹھایا گیا۔
پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے مختلف شہروں میں آئین کے تحت ہائی کورٹ کی مستقل بینچز موجود ہیں لیکن بلوچستان میں ایک بھی مستقبل بینچ بحال نہیں ہوئی۔
کمیٹی چیئرمین نے پاکستان بار کونسل، بلوچستان بار کونسل، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن سمیت دیگر بار نمائندگان کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا، ان تمام بار کے نمائندے اجلاس میں بھی موجود تھے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ چونکہ آئین میں خصوصی طور بلوچستان کی بینچز کا حوالہ دیا گیا ہے تو یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے اور بنیادی حقوق کے تحت ان بینچز کو فعال کیا جائے۔
اس مسئلے پر سنگین خدشات کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹ اجلاس کے تمام ممبران نے اتفاق کرتے ہوئے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ سمیت گورنر اور وزیراعلیٰ سے بھی تحریری درخواست دینے اور انہیں سینیٹ کمیٹی کے تحفظات سے آگاہ کرنے پر اتفاق کیا۔