اسلام آباد ہائی کورٹ العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی سزا معطلی سے متعلق درخواست پر سماعت آج (29 اکتوبر) کو ہوگی۔
واضح رہے کہ 26 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی متفرق درخواست پر نواز شریف کی منگل تک طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کی تھی۔
وفاقی دارالحکومت کی عدالت عدالیہ میں 2 رکنی بینچ نواز شریف کی سزا معطلی سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کرے گا۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور ڈیڑھ ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی تھی، جس کے بعد وہ کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے۔
یاد رہے کہ شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست دائر کی تھی اور استدعا کی تھی کہ اپیل پر فیصلہ ہونے تک طبی بنیادوں پر نواز شریف کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔
ابتدائی طور پر اس معاملے پر سماعت ہوئی تھی اور 25 اکتوبر کو عدالت نے سماعت میں ریمارکس دیے تھے کہ نواز شریف کی قانونی طور پر ضمانت ممکن نہیں، تاہم طبی بنیادوں پر معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
بعد ازاں اس درخواست پر سماعت منگل 29 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی تھی۔
تاہم نواز شریف کی خرابی صحت کو دیکھتے ہوئے شہباز شریف نے ہفتہ یعنی 26 اکتوبر کو ایک متفرق درخواست کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔
وکیل خواجہ حارث کے توسط سے دائردرخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ نواز شریف کی درخواست ضمانت پر فوری سماعت کی جائے، جس کے بعد عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے 26 اکتوبر کو ہی کیس کی سماعت کی تھی۔
تقریباً شام ساڑھے 6 بجے تک جاری رہنے والی اس طویل سماعت میں عدالت نے کئی مرتبہ سماعت کو ملتوی کیا اور وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، نیب کے نمائندوں کو عدالت طلب کرکے جواب مانگا تھا۔
ہفتے کو ہونے والی سماعت کے دوران ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انسانی بنیادوں پر ہمیں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں۔
جس کے بعد عدالت نے انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی درخواست ضمانت کو منگل تک منظور کرتے ہوئے 20، 20 لاکھ روپے کے 2 مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
ساتھ ہی عدالت نے حکم دیا تھا کہ وفاقی حکومت تمام صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کرے اور پوچھے کہ بیمار قیدیوں سے متعلق صوبائی حکومتوں نے کیا اقدامات کیے۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو 15 روز میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ رپورٹ میں بتایا جائے کہ کتنے قیدی دوران قید صوبائی حکومت کے اختیارات پر عمل نہ کرنے پر انتقال کر گئے اور قیدیوں سے متعلق عدالتی حکم پر کیا عمل درآمد ہوا۔
علاوہ ازیں عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو 29 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ عثمان بزدار منگل کو ذاتی حیثیت میں متعلقہ بینچ کے سامنے پیش ہوں۔
نواز شریف کی خرابی صحت
خیال رہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہوگئے تھے جس کے بعد انہیں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کی گئی تھیں۔
سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز کر رہے ہیں جبکہ اس بورڈ میں سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ گیسٹروم انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اور فزیشن بھی شامل ہیں۔
بعد ازاں اس میڈیکل بورڈ میں نواز شریف کے ذاتی معالج سمیت مزید دیگر ڈاکٹرز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔
طبیعت کی ناسازی کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کے بھائی اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کے لیے 2 درخواستیں دائر کی تھیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی نیب حراست سے رہائی سے متعلق تھی، جس پر 25 اکتوبر کو سماعت کی تھی اور اس کیس میں ایک کروڑ روپے کے 2 مچلکوں کے عوض نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔