کینیا پولیس کی مبینہ فائرنگ سے قتل ہونے والے معروف صحافی ارشد شریف کی والدہ نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی ہے۔
مرحوم ارشد شریف کی والدہ رفعت آرا علوی نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط ارسال کیا، جس میں کہا گیا کہ کیس کو متنازع ہونے سے بچایا جائے اور ارشد شریف کے اہل خانہ کو انصاف فراہم کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہید بیٹے کے کیس کو سیاسی منافقت اور بد دیانتی سے بچایا جائے، اپنا کیس اللہ کی عدالت میں رکھ کر انصاف کی طلب گار ہوں، توقع ہے میرا خط شہید بیٹے کے خط کی طرح سردخانے کی نظر نہیں ہوگا، شہدا کے اہل خانہ اور صحافی برادری کا غم و غصہ فراہمی انصاف سے ہی کم ہوگا۔
خط میں کہا گیا کہ کینیا کی پولیس نے تین سے چار مرتبہ اپنا مؤقف تبدیل کیا، تحقیقاتی ٹیم کی روانگی سے قبل وفاقی وزرا نے من گھڑت کہانیاں بنائیں جو میڈیا کے ریکارڈ پر موجود ہیں، وزیراعظم نے اپنے بیان میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا، ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانا حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف دبئی پہنچے تو تسلی تھی کہ اب خطرے سے باہر ہیں، حکومت نے متحدہ عرب امارات کی حکومت پر دباو ڈالا جس پر ارشد شریف کو دبئی چھوڑنا پڑا، دبئی سے نکلنے پر ارشد شریف شہید کو کینیا جانا پڑا، کینیا میں دو ماہ بعد میرے بیٹے کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔
والدہ رفعت آرا علوی کا مزید کہنا تھا کہ ارشد شریف شہید نے 12 مئی کو بذریعہ خط آپ کو خطرات سے آگاہ کیا تھا، خط میں آپ کو غداری کے بے بنیاد مقدمات سے آگاہ کیا تھا، خطرات کی وجہ سے ارشد شریف کو ملک سے باہر پناہ لینی پڑی تھی، ارشد شریف کے بے دردی سے قتل پر حکومت کے رویے کا نوٹس لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی بیوہ اور یتیم بچوں کو انصاف کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔
خیال رہے کہ 24 اکتوبر کو معروف صحافی و سینیئر اینکر پرسن ارشد شریف کے اہل خانہ نے تصدیق کی تھی کہ ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کردیا گیا ہے۔
ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’آج میں نے اپنا دوست، شوہر اور پسندیدہ صحافی کھو دیا، پولیس نے بتایا ہے کہ ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے‘۔
بعد ازاں، وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کینیا کے صدر ولیم روٹو کو ٹیلی فون کرکے معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کی غیرجانب دارانہ اور شفاف تحقیقات پر زور دیا تھا۔
دریں اثنا وزارت خارجہ کی جانب سے ارشد شریف کی ناگہانی موت پر گہرے رنج اور سوگوار خاندان سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ کینیا میں پاکستانی حکام نے ارشد شریف کی میت کی شناخت کرلی ہے۔
کینیا کی مقامی نیوز ویب سائٹ ’دی اسٹار‘ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔
27 اکتوبر کو کینیا کے صحافیوں نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی نئی تفصیلات منظر عام پر لاتے ہوئے واقعے پر سوالات کھڑے کردیے تھے جس کے بعد معاملہ مزید پیچیدہ ہو کیا تھا۔
کینیا کے ’نیشن میڈیا گروپ‘ کی جانب سے شائع ہونے والی ایک خبر میں ایک سینیئر تفتیشی رپورٹر نے کہا کہ پولیس کے دعووں کے مطابق ارشد شریف کی کار میں سوار شخص نے جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) کے افسران پر گولی چلائی تھی۔
یاد رہے کہ 27 اکتوبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے غیرمتوقع ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے اگست میں ایک خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والا گروپ ارشد شریف کو نشانہ بنانا چاہتا ہے، ارشد شریف کو کسی نے دبئی جانے پر مجبور نہیں کیا تھا۔
ارشد شریف کے قتل نے پاکستان میں شدید غم و غصے کو جنم دیا اور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا، حکومت نے ان مطالبات پر توجہ دیتے ہوئے 2 رکنی انکوائری ٹیم تشکیل دی تھی اور اسے نیروبی روانہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ 31 اکتوبر کو ڈان کی رپورٹ کے مطابق قتل کی تحقیقات کے لیے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایک ایک اہلکار پر مشتمل کینیا جانے والی کمیٹی نے دارالحکومت نیروبی میں 2 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔