جب تخت لرزیں، اور سچائی چیخ اٹھے ایلون مسک اور ٹرمپ کی برہنہ تلواریں، تہذیبوں کا تصادم !
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
کبھی کبھی دنیا کے سب سے طاقتور چہروں کے درمیان ایک ٹکراؤ پوری تہذیب کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہوا جب ایلان مسک سلیکون ویلی کا تاجدار اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن کا خودساختہ شہنشاہ ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا کے میدان میں برہنہ تلواریں لیے اُترے۔
یہ محض ایک بل پر رائے کا اختلاف نہیں تھا۔ یہ ایک نظام کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا جس کی بنیاد تھی پیسہ، طاقت، جنسی فریب، شفافیت کا دھوکہ، اور عوامی اعتماد کا جنازہ۔ یہ لڑائی ایک عظیم بل سے شروع ہوئی ایک ایسا بل جس میں ٹیکس کٹوتیوں کے پردے میں ایلان مسک کے خواب چکنا چور ہو رہے تھے۔ ٹرمپ نے کہا: ’’سبسڈی ختم کرو، لوگ ٹیسلا نہیں خریدنا چاہتے‘‘۔ مسک نے جواب دیا: ’’جس صدر کی کرسی پر بیٹھے ہو، وہ میرے ہی پیسوں سے بنی ہے‘‘۔ یہ وہ مقام تھا جہاں دولت اور اقتدار کا پرانا معاہدہ ٹوٹا۔
سچ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر کچھ نہیں، مگر اب دونوں ایک دوسرے کو فنا کرنا چاہتے ہیں۔ اور پھر ایلان مسک نے وہ بم پھوڑا جس کی گونج صرف امریکہ میں نہیں، ہر اس جگہ سنی گئی جہاں انسانی اخلاقیات کو مقدس مانا جاتا ہے۔ ’’ٹرمپ کا نام ایپسٹین فائلز میں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج تک جاری نہیں کی گئیں، ایلان مسک کا یہ محض الزام نہیں تھا، یہ اخلاقی تخت کی اینٹ کھینچنے والا بیان تھا۔ کیونکہ ایپسٹین کا نام آتے ہی ایک نئی دنیا کھلتی ہے، جہاں نابالغ لڑکیوں کا سودا ہوتا ہے، جہاں طاقتور لوگ بلیک میلنگ کی ویڈیوز میں قید ہوتے ہیں، اور جہاں قانون صرف تماشائی ہوتا ہے۔
جیفری ایپسٹین ایک ایسا امریکی فنانسر جو بظاہر ارب پتی، خوش لباس، بااثر اور خوش گفتار تھا، مگر اسکے باطن میں ایک ایسا درندہ چھپا بیٹھا تھا جو اپنی دولت، تعلقات، اور فریب سے درجنوں نابالغ لڑکیوں کی معصومیت نوچتا رہا۔ مگر کہانی صرف اس کی حیوانیت تک محدود نہیں یہ ایک تنہا درندے کی نہیں، پورے نظامِ زر و زَر کی کہانی ہے۔ کیونکہ ایپسٹین کے گرد وہ چہرے اکٹھے تھے جنہیں دنیا نے برسوں عزت، وقار، اور عظمت کا مجسمہ سمجھا۔ صدور، شہزادے، سی ای اوز، اداکار، جج، ماڈلنگ ایجنٹس یہ سب اس مکروہ کھیل کا حصہ تھے، جن کے چہروں پر شرافت کے نقاب تھے اور دلوں میں درندگی کے خیمے۔
جیفری ایپسٹین دراصل کوئی ایک شخص نہیں، وہ ہماری تہذیب کا دھندلا مگر بےرحم آئینہ تھا۔ ایسا آئینہ جو ہمیں دکھاتا ہے کہ جب دولت بےحیائی سے گٹھ جوڑ کرلے، جب طاقت شرم کو قتل کر دے، جب قانون کی آنکھ سو جائے اور میڈیا ضمیر کی بجائے مفاد کی زبان بولے تو پھر انسان اور حیوان میں حدِ فاصل مٹنے لگتی ہے۔ ایپسٹین کا “Lolita Express” کوئی محض طیارہ نہ تھا، بلکہ وہ پرواز تھی جو انسانی اخلاقیات کے ملبے پر اڑتی رہی۔ اور وہ اس میں سوار تھے وہ سب جنہیں ہم نے کبھی رہنما کہا، کبھی مربی، کبھی ہیرو، اور کبھی نجات دہندہ۔
اور آخرکار، وہی انجام جو اکثر سچ بولنے والوں یا بہت کچھ جاننے والوں کا ہوتا ہے ایپسٹین کی جیل میں پراسرار موت۔ دنیا نے اسے خودکشی کہا، مگر تاریخ نے اسے سچائی کا گلا گھونٹنے کی بین الاقوامی رسم قرار دیا۔ کیونکہ کچھ سچ اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ ان کا زندہ رہنا طاقتوروں کے لیے موت کے مترادف ہوتا ہے
اگر ہم ایپسٹین فائلز میں گمشدہ ضمیر کی داستان کا مطالعہ کریں، تو یہ صرف ایک فہرست نہیں، یہ تاریخ کی وہ سیاہ تحریر ہے جہاں طاقتوروں کے چہروں پر سفیدی اور باطن میں تاریکی بسی ہے۔ جہاں قانون کتاب میں لکھا ہے، مگر اس کو طاقت اور پیسے سے خریدا گیا تھا۔ یہ ان ناموں کی کہانی ہے جو عزت کی دیوار پر آویزاں تھے، اور جرم کے گرداب میں غرق نکلے۔
سابق صدرِ امریکہ بل کلنٹن وہ جو جہاز میں سوار رہا، مگر اعتراف سے انکار کرتا رہا۔ وہ 2002–2005 تک مزے لوٹتا رہا۔ یہ وہ صدر ہے جو دنیا بھر میں جمہوریت کا نقیب رہا، مگر ایپسٹین کے “Lolita Express” پر کم از کم 26 بار پرواز کرتا رہا۔ تصاویر خاموش تھیں، فلائٹ لاگز گواہ، اور کلنٹن ہمیشہ یہی کہتا رہا: “میں نے سفر کیا، مگر مقصد نیک تھا”۔ اگر یہ نیکی ہے، تو بدی کا کیا مطلب ہوگا؟
برطانوی شاہی خاندان کا پرنس اینڈریو تاج کا وارث یا سکینڈل کا قیدی؟ یہ 2001–2015 کے دوران ملوث بتایا گیا۔ ورجینیا رابرٹس کا الزام ہے کہ وہ نابالغ تھی جب شہزادہ اسے ایپسٹین کے ذریعے استعمال کرتا رہا۔ عدالت سے باہر تصفیہ کر کے خاموشی خریدی گئی۔ مگر کیا انصاف پیسے سے رخصت کیا جا سکتا ہے؟ شہزادہ آج بھی کہتا ہے: “میں مجرم نہیں” مگر تصاویر اور گواہیاں کسی اور حقیقت کی شہادت دیتی ہیں۔
مشہور امریکی قانون دان ایلن ڈرشووٹز وہ وکیل بھی تھا اور ملزم بھی۔ یہ 1996 سے 2007 کے دوران کی بات ہے جب وہ ایپسٹین کا دفاعی وکیل تھا، مگر خود بھی اسی گہرے کیچڑ میں لت پت پایا گیا۔ جب انصاف کا محافظ ہی ملزم بن جائے، تو نظام کس دروازے پر جا کر فریاد کرے؟ انہوں نے الزام لگانے والی پر ہی مقدمہ دائر کیا، مگر الزامات کی بدبو آج بھی ان کا پیچھا کر رہی ہے۔
جین-لوک برونیل یہ فرانسیسی ماڈلنگ ایجنٹ خواب بیچنے والا اور اجسام خریدنے والا شخص تھا۔ اس نے 2000–2019 کے دوران وہ ماڈلز جو “دنیا کی اسٹیج” پر آتی تھیں، درحقیقت ایپسٹین کے لیے نابالغ لڑکیاں فراہم کیں۔ فرانس کی جیل میں اس کی پراسرار موت نے سب کچھ دفن کر دیا، مگر سوال زندہ رہے: کیا وہ خاموش کیا گیا، یا خود خاموش ہو گیا؟
ارب پتی اور معروف برانڈ Victoria’s Secret کا مالک لیس ویکسینر دولت کا دیوتا یا گمشدہ ضمیر؟ وہ 1990s–2007 تک مزے لوٹتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ نیویارک کا قیمتی فلیٹ انہوں نے ایپسٹین کو دیا۔ ایپسٹین نے خود کو ان کا “اکلوتا دولت مینیجر” کہا۔ یہ تعلق کاروبار کا تھا یا بلیک میلنگ کا؟ یہ آج بھی گمان کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔
برطانوی سپر ماڈل ناؤمی کیمبل خوبصورتی کی دیوی، خاموشی کی ساتھی۔ وہ 1998–2006 تک ایپسٹین کے حلقے میں رہی، ان پارٹیوں میں شریک ہوتی رہی، جہاں ایپسٹین اور میکسویل کے سائے در و دیوار پر تھے۔ کچھ متاثرہ لڑکیوں نے کہا: “وہ بھی وہاں تھی، جہاں ہمیں خریدا جاتا تھا”۔ کیا شرکت جرم ہے؟ یا خاموشی سب سے بڑا گناہ؟
ایپسٹین کی ساتھی جیسا لین میکسویل ایک عورت جو عورتوں کا شکار کرتی رہی۔ وہ صرف گرومر نہیں بلکہ شیطان کی دستِ راست تھی۔ نابالغ لڑکیوں کو لاتی، ان کے خواب بُنتی، اور پھر انہیں ایسی زندگی میں دھکیل دیتی جہاں خواب صرف بیچنے کے لیے ہوتے ہیں، جینے کے لیے نہیں۔ 2021 میں عدالت نے کہا: “تم مجرم ہو” اور سزا سنائی 20 سال قید۔
ڈونلڈ ٹرمپ تاجر سے صدر تک، اور پھر دوبارہ سوالوں میں۔ وہ 1990s–2002 کے دوران Mar-a-Lago میں ایپسٹین سے ملتا رہا، فلائٹ لاگز میں اس کا نام موجود ہے، اور اب ایلان مسک کا دعویٰ ہے کہ وہ ایپسٹین فائلز میں چھپایا گیا ہے۔ ٹرمپ کہتے ہیں: “میں نے اسے نکال دیا تھا” مگر تاریخ کہتی ہے: “تم اسے جانتے تھے، اور شاید بہت کچھ بھی”۔
یہ صرف فہرست نہیں، یہ وہ آئینہ ہے، جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ طاقت، شہرت، اور دولت جب ضمیر کو خرید لے، تو قانون صرف دستاویز، اور انصاف صرف کسی اور دن کا وعدہ رہ جاتا ہے
ایلان مسک اب محض ایک تاجر نہیں، وہ ڈیجیٹل دنیا کے روحانی پیشوا بنتے جا رہے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں سچائی کا جھنڈا ہے، مگر گرد و پیش میں مفادات کا طوفان۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کوئی روایتی سیاستدان نہیں، نہ وہ مسیحا ہیں، نہ پارسا، مگر وہ جانتے ہیں کہ آج اقتدار بیلٹ بکس سے نہیں، وائرل کلپس سے نکلتا ہے۔ ووٹوں سے نہیں، وِیوز سے حکومت بنتی ہے۔ ان کا اثاثہ ان کی سوچ نہیں، ان کا سسٹم ہے Tesla کی رفتار، X کا بیانیہ، Starlink کا پھیلاؤ، اور اربوں ڈالر کی خاموش طاقت۔
وہ “سچ” بیچتے ہیں، مگر ان کا دامن بھی سوالوں سے خالی نہیں: ازدواجی زندگی کے انتشار، تعلقات کی سرگوشیاں، اخلاقی تنازعات کی پرچھائیاں۔ کیا ایسی شخصیت سے ہم نئے اخلاقی بیانیے کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ یا پھر ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں قائد وہی ہے جو ہٹ لسٹ پر ہو، اور سچ وہی ہے جو پیکیج میں بکتا ہو۔
امریکہ کی عوام اب بے زار ہے۔ 52 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس لڑائی سے لاتعلق ہیں یہ اب ان کا مسئلہ نہیں، ایک ایسا شور ہے جو ضمیر کی نیند میں مداخلت کرتا ہے۔ وہ اس تماشے سے تھک چکے ہیں جو ہر چار سال بعد اسٹیج پر سچائی کا نام لے کر مفاد کی جنگ لڑتا ہے۔ مگر یہ صرف امریکہ کی داستان نہیں یہ پاکستان، بھارت، فرانس، ہر اس قوم کی کہانی ہے جہاں سچائی کا لباس اوڑھ کر جھوٹ بیچا جاتا ہے، اور انصاف کو منظوری درکار ہوتی ہے کسی بڑی طاقت کے سائن کی۔
یہ لڑائی ایلان اور ٹرمپ کے درمیان نہیں ہے۔ یہ جنگ ہے دو تصورات کے بیچ ایک طرف وہ دنیا جو سچ کو خطرہ سمجھتی ہے، اور دوسری جانب وہ سوچ جو سچ کو طاقت سمجھتی ہے۔ وہ دور جس میں “انصاف” کے لیے اجازت درکار ہے، اور “قیادت” کے لیے شہرت اور سرمایہ شرط ہیں۔
اب جب ایلان مسک دعویٰ کرتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا نام بھی ایپسٹین فائلز میں چھپا ہے، اور اسی لیے وہ فائلز دبائی جا رہی ہیں تو سوال یہ نہیں کہ یہ دعویٰ سچ ہے یا جھوٹ۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کو یہ سچ جاننے دیا جائے گا؟ یا وہی پرانا کھیل چلے گا طاقتور کی خطا کو خاموشی میں لپیٹنے کا کھیل؟
سوچنے کی بات یہ ہے: اگر یہی اسکینڈل کسی اسلامی ملک میں ہوتا، تو مغربی میڈیا اسے “انتہاپسندی، عورت دشمنی، اور مذہبی شدت پسندی” کے طوفان سے جوڑ دیتا۔ مگر جب یہی گھناؤنا کھیل مغرب کے ایوانوں میں کھیلا جاتا ہے، تو وہی میڈیا خاموشی کو فہم و فراست کا جامہ پہنا دیتا ہے۔
یہ وہ دہرا معیار ہے جو ہمیں جھنجھوڑتا ہے۔ جہاں طاقتوروں کے لیے جرم معاف، مگر کمزوروں کے لیے خاموشی بھی گناہ۔ جہاں غریب کا سچ بغاوت، اور امیر کا جھوٹ ’پالیسی‘ بن جاتا ہے۔
ایلان مسک کا یہ بم شیل، صرف ایک بیان نہیں یہ گواہی ہے کہ عالمی انصاف کا نظام اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ یہاں اگر آپ نادار ہیں، تو گناہ سے پہلے ہی مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اور اگر آپ سرمایہ دار ہیں، تو جرم کے بعد بھی “معزز شہری” کہلائے جاتے ہیں۔
ایپسٹین فائلز کسی ایک ملک کا مقدمہ نہیں، یہ پوری انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ وہ داغ ہے جو ہم سب کے اجتماعی ضمیر پر لگ چکا ہے اور بدقسمتی یہ کہ اس داغ کو چھپانے کی کوشش بھی وہی کر رہے ہیں جنہوں نے اسے لگایا۔
دنیا آج جمہوریت کے نام پر صرف کھیل رہی ہے اور یہ کھیل تماشا نہیں، بلکہ وہ میدان ہے جہاں سچ، عزت، اور انسانیت ہار رہے ہیں۔ اور اگر دنیا کے سب سے طاقتور لوگ خود کو بچانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیں، تو پھر غریب اور بےبس انسان کو سچ بولنے کی قیمت کون چکائے گا
اور آخر میں سوال وہی ہے: اگر سچ بولنا جرم ہے، تو خاموشی عزت کیوں کہلاتی ہے؟
ایپسٹین فائلز بتاتی ہیں کہ خطرہ جھوٹ سے نہیں، اس سچ سے ہے جو اگر عیاں ہو جائے، تو اس سے دنیا کی بنیادیں لرز جاتی ہیں۔
طاقت جرم کو چھپا لیتی ہے، انصاف بکتا ہے، اور ہم خاموشی سے یہ سب دیکھتے رہتے ہیں۔
اگر آج ہم نے آنکھیں بند رکھیں، تو کل یہی اندھیرا ہماری نسلوں کا مقدر ہوگا۔
فیصلہ ہمیں کرنا ہے خاموشی کا حصہ بننا ہے یا سچ کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، چاہے وہ سچ کتنا ہی بھاری کیوں نہ ہو !