
خوش آمدید فیلڈ مارشل، مگر کمیونٹی کہتی ہے: ہم کہاں ہیں ؟
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
ٹیکساس: کہا جاتا ہے کہ جب تاریخ لکھی جاتی ہے، تو کچھ سطریں سنہری روشنائی سے لکھی جاتی ہیں، اور کچھ آنکھوں کے آنسو سے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا امریکہ کا دورہ، پاکستانی کمیونٹی کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے مگر بعض کے لیے یہ لمحہ خوشی سے زیادہ محرومی کا پیام بن گیا ہے۔
باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ پیر، 16 جون کو فیلڈ مارشل کی پاکستانی کمیونٹی کے معزز افراد سے واشنگٹن پاکستانی سفارتخانہ میں ملاقات کی ایک نشست طے ہے، جس کا انتظام چیئرمین اوورسیز کمیشن قمر رضا کے سپرد کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں یہ ملاقات ایک قومی وقار کی علامت بن سکتی تھی، وہاں کچھ تلخ حقیقتوں نے اسے ایک تقسیم کا آئینہ بنا دیا ہے۔ قمر رضا نے پورے امریکہ میں صرف من پسند چند خواتین کو اپنے اپنے علاقوں کا “فیلڈ مارشل” مقرر کر دیا ہے نہ کسی مشاورت کی زحمت، نہ کسی میرٹ کی شرط۔ ان خواتین نے جو فہرستیں مرتب کی ہیں، ان میں وفاداریوں کا معیار حب الوطنی نہیں، بلکہ ذاتی تعلقات اور فیملی دوستیاں ہیں۔ ڈیلس سمیت کئی شہروں سے ایسے افراد کو اس لسٹ میذن شامل کر لیا گیا ہے جو نہ سائبر ٹرک مہم کا حصہ تھے، نہ کسی استقبالیے میں ان کی پرچھائیں تک دیکھی گئی، مگر اب وہ پاکستانی سفارت خانے میں فیلڈ مارشل سے ملاقات کے “منتخب کردہ” بن چکے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب وہ لوگ جنہوں نے سڑکوں پر پاکستان کا پرچم لہرایا، جنہوں نے سائبر ٹرک کے پہیوں کو اپنے جذبوں سے چلایا، کاروان کا حصہ بنے وہ پس منظر میں دھکیل دیے گئے ہیں انکا کہنا ہے کہ جب یہ معلوم ہوا تو دلوں میں اک سوال ابھرتا ہے کیا حب الوطنی کی سندیں اب تعلقات کی جیبوں سے نکلتی ہیں؟ کیا اصل کارواں کے سپاہی، منظرنامے سے حذف کر دیے گئے ہیں؟
کمیونٹی رہنماؤں کی جانب سے جاگو ٹائمز سے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کو اب تک دانستہ طور پر ہم سے خفیہ رکھا گیا، اور جن افراد کو ذمہ داریاں دی گئیں، وہ شفافیت کے اصولوں سے نابلد نکلیں۔
دلچسپ مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ قمر رضا نے پورے امریکہ میں صرف خواتین کو ہی اس فہرست سازی کے لیے چُنا، گویا امریکہ میں مقیم محب وطن مرد حضرات کی حیثیت مشورے کے قابل بھی نہیں رہی۔
بازگشت ہے، سرگوشیاں ہیں، اور کچھ جگہوں پر غصے کے الفاظ بھی کیونکہ یہ صرف ایک ملاقات نہیں، ایک اعزاز ہے، ایک موقع ہے اور یہ موقع اُن کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا ہے جنہوں نے خاموشی سے خدمت کی، بغیر نام چاہے، بغیر تصویر کے۔ اب جب فیلڈ مارشل امریکی سرزمین پر قدم رکھ چکے ہیں ، تو کیا وہ ان چہروں کو بھی دیکھ سکیں گے جو پردے کے پیچھے رہ گئے؟ کیا ان آوازوں کی بازگشت ان تک پہنچے گی جو دل کی گہرائیوں سے صرف ایک لمحہ قربت چاہتے تھے؟
وقت شاید خاموش ہو، مگر احساسات شور مچاتے ہیں اور یہ صرف ایک خبر نہیں، یہ کمیونٹی کی دھڑکن ہے کہ جس نے چاہا تھا استقبال کرنا، مگر انکو خوش آمدید کہنے والوں کی صف سے غائب کر دیا گیا ہے؟