برطانیہ میں بچوں پر ویپنگ کے طویل مدتی اثرات کی تحقیق

برطانیہ میں بچوں پر ویپنگ کے طویل مدتی اثرات کی تحقیق


برطانوی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک طویل مدتی تحقیق کرے گی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ویپنگ کا بچوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ مطالعہ آئندہ دس سال تک جاری رہے گا اور آٹھ سال کی عمر کے بچوں سمیت 100,000 افراد کی صحت اور رویے پر تحقیق کرے گا۔

برطانیہ میں بچوں میں ویپنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر حکومت سخت اقدامات کر رہی ہے۔ اندازوں کے مطابق 11 سے 15 سال کی عمر کے ہر چار میں سے ایک بچے نے کم از کم ایک بار ویپنگ کی ہے۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے جون سے ڈسپوزیبل ویپس پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جو کہ صرف پانچ پاؤنڈ میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پارلیمنٹ میں زیر غور ٹوبیکو اینڈ ویپس بل کے تحت بچوں کو متوجہ کرنے والے ذائقوں اور پیکجنگ پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔

برطانوی محکمہ صحت کے مطابق، “نوجوانوں میں ویپنگ کے طویل مدتی صحتی اثرات مکمل طور پر معلوم نہیں ہیں، اور یہ جامع مطالعہ ہمیں تفصیلی معلومات فراہم کرے گا۔”

یہ تحقیق 62 ملین پاؤنڈ (78.1 ملین ڈالر) کی لاگت سے کی جائے گی اور اس میں 8 سے 18 سال کی عمر کے افراد کو شامل کیا جائے گا۔ تحقیق میں بچوں کے رویے، صحت کے ریکارڈ، اور جسمانی اثرات کا مشاہدہ کیا جائے گا۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) پہلے ہی متنبہ کر چکا ہے کہ ای سگریٹ کا استعمال روایتی سگریٹ کی طرح صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور یہ خاص طور پر نوجوانوں میں نکوٹین کی لت کو فروغ دے سکتا ہے۔

برطانوی پھیپھڑوں کی فلاحی تنظیم، ایستھما + لانگ یو کے کی سی ای او سارہ سلیٹ نے کہا، “یہ پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ ویپنگ سے سانس کی نالیوں میں سوزش پیدا ہو سکتی ہے، اور دمہ کے مریضوں نے بتایا ہے کہ ویپس ان کی بیماری کو مزید بگاڑ سکتے ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ ویپنگ سے بچوں کے پھیپھڑے متاثر ہو سکتے ہیں، جبکہ نکوٹین دماغی نشوونما کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

برطانیہ میں عام سگریٹ پر بھاری ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں اور ان کی تشہیر پر سخت پابندیاں ہیں، لیکن ویپنگ مصنوعات پر ایسا کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ رنگ برنگے ڈیزائن اور پھلوں کے ذائقے انہیں دکانوں میں بچوں کے لیے پرکشش بناتے ہیں۔

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اکتوبر سے ویپنگ لیکوئڈ پر ایک مقررہ ٹیکس عائد کرے گی۔ اس تحقیق کے نتائج پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیں گے کہ بچوں کو اس کے ممکنہ خطرات سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی، حکومت نے نوجوانوں میں آگاہی بڑھانے کے لیے ایک قومی مہم بھی شروع کی ہے، جو سوشل میڈیا پر انفلوئنسرز کے ذریعے نوجوانوں تک پہنچائی جائے گی۔


اپنا تبصرہ لکھیں