برطانیہ کی حکومت نے نئے امیگریشن قوانین متعارف کرائے ہیں، جن کے تحت غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہونے والے افراد اب شہریت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس اقدام کو شدید تنقید کا سامنا ہے، کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے مہاجر کنونشن سمیت بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے، جس پر برطانیہ نے دستخط کر رکھے ہیں۔
یہ قانون سازی نہیں بلکہ امیگریشن کیس ورکرز کے لیے دی گئی نئی ہدایات کے ذریعے نافذ کی گئی ہے، جس سے اسے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر جلد لاگو کیا جا سکتا ہے۔
امیگریشن قوانین کی سختی – پس منظر
- 2024 میں ایک قانونی ترمیم کے تحت جدید غلامی کے متاثرین کو مزید سخت شواہد پیش کرنے کا کہا گیا تھا، جس سے ان کے تحفظ کے امکانات محدود ہو گئے تھے۔
- نئے شہریت کے اصول دراصل غیر قانونی امیگریشن ایکٹ کی جگہ لے رہے ہیں، جو حال ہی میں منسوخ کیا گیا تھا۔
- 10 فروری 2025 کے بعد جمع کرائی گئی تمام درخواستوں پر یہ نیا قانون لاگو ہوگا، چاہے درخواست گزار نے ملک میں داخلہ کب لیا ہو۔
لیبر حکومت کا سخت مؤقف
جولائی 2024 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد، وزیرِاعظم کیئر سٹارمر نے امیگریشن پالیسیوں کو مزید سخت کر دیا ہے۔
- انگلش چینل میں بارڈر پیٹرول میں اضافہ کیا گیا ہے تاکہ پناہ گزینوں کو روکا جا سکے۔
- اطالوی وزیرِاعظم جورجیا میلونی کی امیگریشن پالیسیوں کی تعریف کی گئی، جو سخت قوانین کے لیے مشہور ہیں۔
- لیبر پارٹی پر اینٹی امیگریشن ریفارم پارٹی کا دباؤ ہے، جو عوامی حمایت حاصل کر رہی ہے۔
قانونی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی؟
- اقوام متحدہ کے مہاجر کنونشن کے مطابق کسی بھی شخص کو ملک میں داخلے کے طریقے کی بنیاد پر سزا دینا غیر قانونی ہے۔
- یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے مائیگریشن آبزرویٹری ماہرین کے مطابق، اس قانون کی وجہ سے لاکھوں افراد شہریت سے محروم ہو سکتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہوں۔
- چونکہ برطانوی شہریت کی درخواست مہنگی ہے اور اس پر اپیل کا کوئی حق نہیں، اس قانون سے درخواست گزاروں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔
نتیجہ
برطانوی حکومت کے سخت امیگریشن قوانین بین الاقوامی معاہدوں اور انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اس پالیسی کا مقصد غیر قانونی مہاجرت کو روکنا ہے، لیکن اس کے اثرات مہاجرین، پناہ گزینوں اور قانونی درخواست دہندگان پر بھی پڑ سکتے ہیں۔