غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، امریکہ نے چینی درآمدات پر محصولات میں ڈرامائی اضافہ کا اعلان کیا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جاری کردہ ایک نئے ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق ڈیوٹیوں کو 245 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ اقدام جاری تجارتی تنازعے میں چین کے جوابی اقدامات کے جواب میں کیا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا، “چین نے ہمارے لیے کوئی دوسرا آپشن نہیں چھوڑا،” اور یہ دعویٰ کیا کہ جب 75 ممالک نے محصولات پر مذاکرات کیے، تو بیجنگ نے بات چیت کے بجائے انتقامی کارروائی کا انتخاب کیا۔
وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک فیکٹ شیٹ نے نئے تیز محصولات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، “چین کو اب اپنی انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں امریکہ میں درآمدات پر 245 فیصد تک محصولات کا سامنا ہے۔”
چین کا جواب
بیجنگ میں، چینی وزارت خارجہ نے تشویش کا اظہار کیا اور صحافیوں سے واشنگٹن سے وضاحت طلب کرنے کا مطالبہ کیا۔ بدھ کے روز ایک پریس بریفنگ میں بات کرتے ہوئے ترجمان لن جیان نے کہا کہ موجودہ محصولات کی جنگ “امریکہ نے شروع کی تھی،” اور چین کے جوابی اقدامات “مکمل طور پر معقول اور جائز” تھے۔
انہوں نے مزید کہا، “جب چین کے اگلے اقدامات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ اس نمبر کو جواب کے لیے امریکی فریق کے پاس لے جا سکتے ہیں۔”
لن نے تجارتی جنگوں کے خلاف بیجنگ کے دیرینہ موقف کو دہرایا اور کہا، “محصولات کی جنگوں اور تجارتی جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہے۔ چین لڑنے کا خواہشمند نہیں ہے اور نہ ہی لڑنے سے ڈرتا ہے۔”
انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ جسے انہوں نے “انتہائی دباؤ کی حکمت عملی” قرار دیا ہے اسے ترک کر دے اور اس کے بجائے مساوات، احترام اور باہمی فائدے پر مبنی مذاکرات کی طرف واپس آئے۔
عالمی معاشی اثرات
محصولات میں تیز اضافے سے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی تعلقات مزید کشیدہ ہونے کی توقع ہے اور اس کے عالمی سپلائی چینز پر لہراتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی سے بحرالکاہل کے دونوں طرف صارفین اور کاروباروں کے لیے زیادہ قیمتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
دریں اثنا، سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ تازہ ترین اقدام واشنگٹن میں معاشی اور جغرافیائی سیاسی محاذوں پر بیجنگ کے ساتھ بڑھتی ہوئی مسابقت کے درمیان ایک سخت موقف کو واضح کرتا ہے۔
جیسے جیسے محصولات کی جنگ تیز ہوتی ہے، بین الاقوامی برادری سمجھوتے—یا اضافے—کے کسی بھی اشارے کے لیے گہری نظر رکھے ہوئے ہے، جو 21 ویں صدی کے سب سے اہم تجارتی تنازعات میں سے ایک بن گیا ہے۔