امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تازہ ترین ایگزیکٹو آرڈر میں ان وِٹرو فرٹیلائزیشن (IVF) کے علاج اور اس کی دستیابی کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ کیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، منگل 18 فروری کو، ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کا مقصد آئی وی ایف کے علاج تک رسائی کو بڑھانا اور اس کی لاگت کو کم کرنا ہے۔ انہوں نے ڈومیسٹک پالیسی کونسل کو 90 دنوں کے اندر پالیسیوں کی سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی۔
47ویں امریکی صدر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ آئی وی ایف کے علاج کو مفت کریں گے، خاص طور پر جب ڈیموکریٹس نے اسقاط حمل کے مخالفین پر تنقید کی تھی کہ وہ آئی وی ایف تک رسائی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ مار-اے-لاگو میں، ٹرمپ نے 30 منٹ تک مختلف موضوعات پر سوالات کے جوابات دیے، جن میں روس-یوکرین جنگ کا معاملہ بھی شامل تھا۔
مزید برآں، ٹرمپ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ “خواتین اور خاندان، خاص طور پر شوہر، میرے اس فیصلے کی بہت قدر کر رہے ہیں” کیونکہ یہ ان خواتین کے لیے ایک ممکنہ حل فراہم کرتا ہے جو قدرتی طور پر حاملہ ہونے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔
یہ طریقہ کار بیضے کو اووری سے نکال کر، لیب میں مردانہ جرثومے (اسپرم) سے ملا کر، اور بعد میں ایمبریو کو رحم میں منتقل کرنے پر مشتمل ہوتا ہے۔ آئی وی ایف کو سائیکلوں میں انجام دیا جاتا ہے، اور بعض اوقات ایک سے زیادہ سائیکل درکار ہوتے ہیں۔
ریزالو: نیشنل انفیرٹیلیٹی ایسوسی ایشن کی صدر اور سی ای او باربرا کولیورا نے اس فیصلے کو “انتہائی حوصلہ افزا” قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا: “لوگوں کے لیے خاندان بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹیں علاج کی زیادہ لاگت اور اس کے لیے انشورنس کوریج کی کمی ہیں۔”
آئی وی ایف کا مسئلہ الیکشن مہم کے دوران ایک اہم بحث بن گیا تھا جب الاباما کی سپریم کورٹ نے ایک متنازعہ فیصلہ دیا کہ اس طریقہ کار کے ذریعے بننے والے “منجمد ایمبریوز” کو “بچے” تصور کیا جائے گا۔
اس فیصلے کے بعد الاباما میں آئی وی ایف کا عمل معطل کر دیا گیا تھا جب تک کہ قانون نے واضح نہیں کر دیا کہ اگر ایمبریو سے بچے کی پیدائش نہ ہو تو کلینکس قانونی طور پر ذمہ دار نہیں ہوں گی۔