ٹرمپ کا قانونی محاذ: امریکی خواب کی حقیقت اور تیسری دنیا کا منظر
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ : امریکہ
یہ امریکہ ہے!
وہ سرزمین جہاں خواب بیچے جاتے ہیں، جہاں امیدیں گروی رکھی جاتی ہیں، اور جہاں کامیابی کی چمک کے پیچھے ہزاروں اندھیروں کی داستانیں دفن ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جو آنے والوں سے کہتا ہے: “محنت کرو، خواب دیکھو، اور کامیاب ہو جاؤ!” مگر کیا یہ واقعی سچ ہے؟ یا یہ ایک ایسا فریب ہے جو صرف چند خوش نصیبوں کے لیے حقیقت بنتا ہے، جبکہ باقی بے بس مسافر اس خواب کے ملبے تلے دب کر رہ جاتے ہیں؟کہتے ہیں، یہ وہ سرزمین ہے جہاں جو چاہو، بن سکتے ہو۔ مگر اس کہانی میں ایک راز چھپا ہے یہاں کامیابی کا دروازہ سب کے لیے کھلا نہیں ہوتا۔ کچھ کے خواب چمکتے فلک بوس عمارتوں میں حقیقت بن جاتے ہیں، اور کچھ فیکٹریوں کے گرد آلود فرش پر ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ وہ تارکین وطن، جو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کا خواب لے کر آئے تھے، آج بھی اجنبی زمین پر دن رات پسینہ بہاتے ہیں، مگر ان کے قدموں تلے زمین پھر بھی کھسکتی رہتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ محنت انہیں آگے لے جائے گی، مگر بعض اوقات محنت صرف زندہ رہنے کا دوسرا نام بن جاتی ہے۔ یہاں بڑے بڑے کاروبار ان مزدوروں کے کندھوں پر کھڑے ہوتے ہیں، جنہیں کبھی ان کی محنت کا صلہ نہیں ملتا۔ یہاں کے کارپوریٹ دفاتر ان لوگوں کے خون اور پسینے سے روشن ہوتے ہیں، جو صرف بقا کی جنگ میں مصروف ہیں۔ یہاں کی عدالتیں انصاف کا درس دیتی ہیں، مگر کئی خواب سڑکوں پر قانون کے بے رحم شکنجے میں کچل دیے جاتے ہیں۔ امریکی خواب کا سحر ہر جگہ بکھرا ہوا ہے، مگر یہ خواب سب کے لیے ایک جیسا نہیں۔ کسی کے لیے یہ خواب ایک عالی شان گھر، لگژری کار، اور طاقتور حیثیت ہے، جبکہ کسی کے لیے یہ صرف ایک چھت اور دو وقت کی روٹی کا نام ہے۔ یہاں کے خواب بھی رنگ، نسل، اور حالات کے مطابق بٹ چکے ہیں۔ گورے کے لیے یہ ایک کھلا میدان ہے، مگر ایک تارک وطن کے لیے یہ خواب صرف ایک مسلسل آزمائش بن کر رہ جاتا ہے۔ کسی کے لیے ترقی کی سیڑھیاں پہلے سے تیار ہوتی ہیں، جبکہ کسی کو اپنی شناخت ثابت کرنے میں پوری زندگی گزر جاتی ہے۔ یہاں کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جن کے پاس سرمایہ، استحقاق (privilege)، یا وہ نسل در نسل منتقل ہونے والا اثر و رسوخ ہوتا ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے کئی زندگیاں بیت جاتی ہیں۔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات نے قانونی دنیا میں بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ ٹرمپ نے اٹارنی جنرل پم بانڈی کو ایک خصوصی ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ان قانونی فرموں کی نشاندہی کریں جو ان کی انتظامیہ کے خلاف “بے بنیاد” مقدمات دائر کر رہی ہیں، تاکہ ان کے خلاف تادیبی اقدامات کیے جا سکیں۔ اس حکمنامے نے امریکی عدالتی نظام، قانونی ضابطوں اور انتظامی اختیارات کے توازن پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں بڑی قانونی فرموں پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، خاص طور پر وہ جو ان کے سیاسی مخالفین یا ماضی کی تحقیقات میں شامل رہی ہیں۔ فروری 25 سے لے کر اب تک صدر ٹرمپ نے Paul Weiss, Perkins Coie, Covington & Burling جیسے معروف اداروں کے ملازمین کے سیکیورٹی کلیئرنس منسوخ کر دیے ہیں اور ان کے سرکاری معاہدوں کا جائزہ لینے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ یہ قدم قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے باعث تشویش ہے، کیونکہ یہ بظاہر ایک سیاسی انتقام کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ بڑے قانونی اداروں کو مجبور کرنے کے لیے یہ دباؤ ایک ایسے وقت میں ڈالا جا رہا ہے جب امریکہ کی اعلی عدالتوں میں کئی حساس معاملات اور مقدمات زیر سماعت ہیں، جن میں امیگریشن، انتخابی قوانین، اور حکومتی شفافیت شامل ہیں۔ دنیا بھر میں اب سیاست، ایک ایسا کھیل ہے جس میں صرف شطرنج کی چالیں نہیں، بلکہ انسانوں کی تقدیریں بھی چلائی جاتی ہیں۔ جب حکمران اپنی طاقت کے بل بوتے پر نظام کے بنیادی اصولوں کو چیلنج کرتے ہیں تو تاریخ ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہو جاتی ہے جہاں ریاستی ڈھانچے کی مضبوطی اور کمزوری کا امتحان ہوتا ہے۔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بڑی قانونی فرموں کے خلاف کارروائی کے احکامات کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہے ہیں۔ مگر کیا یہ کہانی محض امریکی عدالتوں کی ہے؟ یا اس کی گونج تیسری دنیا، خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں بھی سنائی دیتی ہے، جہاں قانون کی تشریح اکثر حکمران کے ذاتی مفاد کے تابع کر دی جاتی ہے؟
حال ہی میں صدر ٹرمپ نے بڑے قانونی اداروں کو کٹہرے میں لانے کا جو بیانیہ تشکیل دیا ہے، وہ بظاہر “بے بنیاد” مقدمات کے خلاف ایک ردعمل ہے، لیکن اس کی گہرائی میں جائیں تو یہ ایک طاقتور حکمران کا قانونی اداروں پر دباؤ ڈالنے کا پرانا حربہ معلوم ہوتا ہے۔ Paul Weiss، Perkins Coie اور Covington & Burling جیسے اداروں کو نشانہ بنانے کا مطلب صرف چند وکلاء کی زندگی اجیرن بنانا نہیں، بلکہ ایک ایسا پیغام دینا ہے کہ کوئی بھی طاقتور کو چیلنج کرنے کی جرات نہ کرے۔ یہی وہ منطق ہے جو پاکستان جیسے ممالک میں برسوں سے چلتی آ رہی ہے، جہاں عدالتیں کبھی طاقتور کے سامنے سر جھکا دیتی ہیں اور کبھی جمہوری اقدار کی جنگ میں تنہا کھڑی رہتی ہیں۔ ٹرمپ کے فیصلوں میں ایک پہلو “DEI پالیسی” یعنی Diversity, Equity, Inclusion پر بھی حملہ ہے۔ گو کہ یہ معاملہ امریکہ کی حد تک ہے، لیکن کیا یہ سوال پاکستان میں بھی لاگو نہیں ہوتا؟ جہاں ادارے اکثر طاقتور اشرافیہ کے زیر سایہ ہوتے ہیں، اور اقلیتوں یا کمزور طبقات کی شمولیت ایک نعرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ٹرمپ نے Paul Weiss کے خلاف کارروائی کو ایک کامیابی قرار دیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ ایک قانونی جنگ تھی، یا محض ایک سیاسی بیانیہ جس کے ذریعے طاقتور کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے والوں کو سبق سکھایا جا رہا ہے؟ عدلیہ کے غیر جانبدار ہونے کی حیثیت پر سوال اٹھانا کوئی نئی بات نہیں، خاص طور پر جب نظام عدل کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جانے لگے۔ ٹرمپ کے اقدامات پر قانونی ماہرین نے شدید ردعمل دیا ہے، لیکن یہی کہانی ہمیں پاکستان جیسے ملک میں زیادہ شدت کے ساتھ نظر آتی ہے، جہاں ججوں پر دباؤ ڈالنا، وکلاء کو ہراساں کرنا، اور مخصوص فیصلے لینے کے لیے عدالتوں کو مجبور کرنا ایک عام روایت بن چکی ہے۔ جب کسی ملک میں عدالت کو آزاد نہیں رہنے دیا جاتا، تو قانون محض ایک طاقتور کے ہاتھ میں کھیلنے والا کھلونا بن جاتا ہے۔ٹرمپ کے میمو میں امیگریشن کے مسائل پر بھی سخت موقف اپنایا گیا ہے، اور بعض وکلاء پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ امیگریشن قوانین کے غلط استعمال میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر پاکستان کی طرف دیکھا جائے، تو یہاں بھی عدلیہ کو اکثر “ملکی سالمیت” کے نام پر دباؤ میں لایا جاتا ہے۔ کبھی سیاستدانوں کے خلاف مقدمات بنا کر انہیں سیاست سے باہر کر دیا جاتا ہے، اور کبھی انسانی حقوق کے کارکنوں کو “ملک دشمنی” کے الزامات میں گھسیٹا جاتا ہے۔ گویا مسئلہ محض امریکہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی رویہ بنتا جا رہا ہے کہ اقتدار میں بیٹھے افراد قانون کے خلاف بھی قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلے حاصل کر لیتے ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کے حامی اس فیصلے کو ایک “اصلاحاتی قدم” قرار دے رہے ہیں، لیکن عدالتی آزادی پر اس کے اثرات کیا ہوں گے، یہ وقت بتائے گا۔ یہ وہی منطق ہے جو تیسری دنیا کے ممالک میں “ملکی مفاد” کے نام پر اپنائی جاتی ہے، جہاں عدلیہ کو ایک طاقتور آمر کے تابع کر دیا جاتا ہے، اور جو اس بیانیے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے، اسے “ملک دشمن” قرار دے کر دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اس قانونی جنگ کو جیت پائیں گے؟ اور اگر جیت بھی گئے، تو کیا واقعی وہ انصاف کی جیت ہوگی، یا محض اقتدار کے ترازو میں جھکتا ہوا قانون؟ یہی سوال پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی اہم ہے، جہاں عدلیہ، وکلاء، اور آزاد قانونی ادارے طاقت کے سامنے کب تک کھڑے رہ سکتے ہیں؟ اگر نظام میں اتنی سکت نہ ہو کہ وہ کسی طاقتور کی مداخلت کا سامنا کر سکے، تو پھر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ انصاف کا معیار کہاں ہے؟ امریکہ ہو یا پاکستان، اگر عدالتیں کمزور پڑ گئیں، تو جمہوریت محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ گو کہ امریکہ میں میڈیا ایک طاقتور ستون ہے، مگر کیا وہ سچ کی تلاش میں مخلص ہے، یا کسی مخصوص بیانیے کو فروغ دینے میں مصروف؟ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے مطابق، مرکزی دھارے کا میڈیا (mainstream media) ان کے خلاف متعصب ہے۔ CNN, The New York Times, The Washington Post جیسے بڑے میڈیا ہاؤسز ٹرمپ کے اقدامات کو جمہوری اقدار کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب، Fox News اور One America News (OAN) جیسے چینلز ٹرمپ کو ایک “قومی ہیرو” کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو “deep state” سے لڑ رہے ہیں۔ یہ میڈیا وار نہ صرف امریکی عوام کو تقسیم کر رہی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی امریکہ کی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ کیسے ایک صدر قانونی، عدالتی اور میڈیا اداروں کے خلاف محاذ کھول چکا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیاں اور امریکی خواب کی حقیقت صرف امریکہ کے اندر ہی موضوع بحث نہیں، بلکہ دنیا بھر میں اس پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یورپ میں، خاص طور پر فرانس اور جرمنی جیسے ممالک میں، امریکی سیاسی اور عدالتی بحران کو جمہوریت کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ چین اور روس کے سرکاری میڈیا چینلز اس صورتحال کو مغربی جمہوریت کی ناکامی کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا امریکہ واقعی انصاف اور مواقع کی سرزمین ہے، یا یہ محض ایک اشرافیہ کے کنٹرول میں موجود طاقت کا مرکز ہے؟
جو کچھ امریکہ میں جاری ہے سوال یہ ہے کہ کیا یہ خواب باقی رہے گا؟امریکی خواب کے بارے میں دنیا بھر کے لوگ دو رائے رکھتے ہیں۔ کچھ کے لیے یہ اب بھی ایک پرکشش حقیقت ہے، مگر بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک ایسا سراب بن چکا ہے، جو قریب جانے پر ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیاں، قانونی جنگیں، اور میڈیا کی تقسیم نے اس خواب پر مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اگر امریکہ نے اپنے عدالتی، سیاسی اور میڈیا اداروں کو آزاد نہ رکھا، تو کیا وہ دن دور ہے جب “امریکی خواب” صرف تاریخ کی کتابوں میں ایک پرانی کہانی بن کر رہ جائے گا؟
یہ امریکہ ہے جہاں خواب دیکھنے کی آزادی ہے، مگر ان کی تعبیر کا حق ہر کسی کو نہیں ملتا۔