ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر: پیدائشی شہریت کے قوانین میں کیا تبدیلیاں کی گیئں– 18 ریاستوں کا عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
رپورٹ: راجہ زاہد اختر خانزادہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ ایگزیکٹو آرڈر نے ملک کے شہریت کے قوانین میں ایک اہم تبدیلی متعارف کرائی ہے، خاص طور پر چودھویں ترمیم کی تشریح سے متعلق۔ اس آرڈر کے تحت پیدائشی شہریت کے نئے معیار مقرر کیے گئے ہیں، جو خاص طور پر ان افراد پر اثر ڈالے گا جو امریکہ میں مخصوص حالات میں پیدا ہوئے ہیں، جن میں غیر دستاویزی اور عارضی رہائشیوں کے بچے بھی شامل ہیں۔ اس ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق، مخصوص حالات میں امریکہ میں پیدا ہونے والے افراد خودبخود امریکی شہریت کے اہل نہیں ہوں گے۔ خاص طور پر وہ بچے جو ایسی ماؤں سے پیدا ہوں گے جو امریکہ میں غیر قانونی طور پر موجود تھیں اور جن کے والدین نہ تو امریکی شہری تھے اور نہ ہی قانونی مستقل رہائشی، انہیں شہریت نہیں دی جائے گی۔ اسی طرح، وہ بچے جو ایسی ماؤں سے پیدا ہوں گے جو عارضی ویزوں پر امریکہ میں موجود تھیں (جیسے طالب علم، سیاح یا ورک ویزا) اور جن کے والد امریکی شہری یا قانونی مستقل رہائشی نہیں تھے، انہیں بھی امریکی شہریت نہیں ملے گی۔ جو افراد اس قانون سے متاثر نہیں ہوں گے، ان میں وہ بچے شامل ہیں جن کے والدین میں سے کم از کم ایک قانونی مستقل رہائشی ہے، وہ امریکی شہریت کے حق سے محروم نہیں ہوں گے۔ اسی طرح، وہ بچے جن کے والدین میں سے کم از کم ایک امریکی شہری ہے، انہیں بھی امریکی شہریت کا حق حاصل رہے گا۔ اس آرڈر میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ قانونی مستقل رہائشیوں کے بچوں کے لیے شہریت کی دستاویزات حاصل کرنے کا حق متاثر نہیں ہوگا۔ اس قانون کا نفاذ 30 دن بعد، یعنی 20 فروری 2025 سے ہوگا۔ اس حکم کو نافذ کرنے کے لیے امریکی وزارت خارجہ، وزارتِ داخلی سیکیورٹی اور دیگر متعلقہ ادارے اس کے تسلسل کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوں گے۔ یہ ایگزیکٹو آرڈر پیدائشی شہریت کے معیار کو سخت کرنے کے لیے اہم تبدیلیاں متعارف کراتا ہے، جس کا مقصد اس کے ممکنہ غلط استعمال کو روکنا ہے۔ تاہم، اس حکم کو قانونی چیلنجز اور وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ کئی خاندانوں کی شہریت کی حیثیت پر اثر ڈال سکتا ہے۔
اس ایگزیکٹو آرڈر کی مزید تفصیلات کے لیے دیکھیں:
اس ایگزیکٹو آرڈر کے جواب میں، 18 ڈیموکریٹک ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف قانونی چیلنج دائر کیا ہے۔ نیو جرسی سے کیلیفورنیا تک کے اٹارنی جنرلز نے میساچوسٹس میں دائر کیے گئے مقدمے میں شمولیت اختیار کی ہے، جبکہ سان فرانسسکو اور واشنگٹن، ڈی سی کی حکومتیں بھی اس معاملے کو عدالت میں لے جا رہی ہیں۔ کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل راب بونٹا نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ کے حکم کو ان کی دوسری مدت کے لیے “خوفناک لہجہ” قرار دیا اور کہا کہ وہ اس حکم کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے بھی ایک علیحدہ مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں ٹرمپ کے حکم کو امریکی اقدار کی نفی قرار دیا گیا ہے۔ یہ قانونی کارروائی اس حکم نامے کی متنازع نوعیت کو ظاہر کرتی ہے اور پیدائشی شہریت کے قوانین میں تبدیلیوں کے عدالتی جائزے کے لیے اہم بنیاد فراہم کرتی ہے۔