2025 میں ٹرمپ کا خطاب: حقیقت یا خوشنما فریب؟ نئے عہد کا آغاز یا پرانے دھوکے کی تجدید؟


2025 میں ٹرمپ کا خطاب: حقیقت یا خوشنما فریب؟ نئے عہد کا آغاز یا پرانے دھوکے کی تجدید؟

تجزیہ: راجہ زاہد اختر خانزادہ

وقت کی دھند میں لپٹی دنیا کی سیاست میں کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو اپنی موجودگی سے تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار بھی انہی کرداروں میں ہوتا ہے، جو محض سیاستدان نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک طرزِ فکر، اور ایک نفسیاتی کشمکش کا استعارہ بن چکے ہیں۔ 2025 کے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے ان کا خطاب صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا بیانیہ تھا جس نے نہ صرف امریکہ کی داخلی سیاست بلکہ عالمی تعلقات پر بھی گہرے سوالات چھوڑ دیے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 2025 میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے پہلا خطاب کئی جھوٹے، مبالغہ آمیز، اور گمراہ کن بیانات پر مشتمل تھا۔ ٹرمپ نے معیشت، امیگریشن، سوشل سیکیورٹی، خارجہ پالیسی اور دیگر موضوعات پر متعدد ایسے دعوے کیے جنہیں حقائق کی روشنی میں غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔صدر کا خطاب تقریباً 1 گھنٹہ 40 منٹ تک جاری رہا، جس میں تالیاں بجانے، داد دینے اور دیگر ردعمل بھی شامل تھے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سانتا باربرا کے  “امریکن پریذیڈنسی پروجیکٹ” نے ریکارڈ کیا ہے یہ کم از کم 1964 سے کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والے سب سے طویل خطابوں میں سے ایک تھا، بشمول اسٹیٹ آف دی یونین تقاریر، اس دوران ٹرمپ نے معیشت، امیگریشن، سوشل سیکیورٹی، خارجہ پالیسی، قانون و انصاف، اور قومی سلامتی جیسے موضوعات پر بات کی۔ الفاظ میں جوش تھا، لہجے میں اعتماد، اور انداز وہی روایتی جارحانہ، جس کے ذریعے وہ اپنے حامیوں کو مسحور کر دیتے ہیں۔ لیکن جب ان الفاظ کے پردے کو ہٹایا جائے تو حقیقت کی ایک اور دنیا سامنے آتی ہے—ایک ایسی دنیا جہاں دعوے حقیقت سے متصادم ہوتے ہیں، اور جہاں “سنہری دور” کے پیچھے زمینی سچائیاں چیخ رہی ہوتی ہیں۔اسطرح گو کہ یہ تقریر اپنی طوالت کے لحاظ سے تاریخی تھی اور اس نے حزب اختلاف کے سخت ردعمل کو جنم دیا۔ ٹرمپ کے دعووں کی حقیقت جانچنے کے بعد، یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی تقریر زیادہ تر غیر مصدقہ یا گمراہ کن بیانات پر مشتمل تھی۔ اس دوران جب ٹرمپ نے اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں جب “سنہری دور”کے آغاز کا اعلان کیا، تو یہ محض ایک وعدہ نہیں تھا، بلکہ ایک خواب بیچا گیا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حکمران سنہرے دور کے خواب بیچتے ہیں، تو ان خوابوں کی قیمت عام انسانوں کا خون اور پسینہ ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ خطاب واقعی امریکہ کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کا پیش خیمہ ہے یا پھر ماضی کی غلطیوں کو نئے رنگ میں پیش کرنے کی ایک اور کوشش؟ خطاب کے دوران ٹرمپ کی زبان میں چمک تھی، الفاظ میں جوش تھا، اور لہجے میں اعتماد۔ مگر الفاظ کے درختوں کے پیچھے حقیقت کا جنگل چھپا تھا۔ جسمیں دھوکہدہی کے نئے پیرائے تلاش کیئے گئے ٹرمپ کی 2025 کی تقریر کئی گمراہ کن اور جھوٹے بیانات پر مشتمل تھی۔اسمیں کچھ بیانات درست یا جزوی طور پر درست تھے۔لیکن اکثر بیانات کو حقائق کی روشنی میں غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں اگر ہم انکی تقریر جائزہ لیں تو یہ تقریر سیاسی نقطہ نظر سے مؤثر ہو سکتی ہے، لیکن سچائی کے پیمانے پر اسے درست نہیں کہا جا سکتا۔ اس ضمن میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت نے فینٹینائل کے اسمگلنگ پر کاری ضرب لگائی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اعداد و شمار ان کے دعووں کی نفی کرتے ہیں۔ میکسیکو سے آنے والی منشیات کا بڑا حصہ امریکی شہریوں کے ذریعے اسمگل ہوتا ہے، اور کینیڈین سرحد سے پکڑی جانے والی مقدار تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی حال معاشی ترقی کے وعدوں کا ہے۔ انکا یہ دعوی کہ ہم “ٹیرف سے کھربوں ڈالر کمائیں گے” یہ دعویٰ وہی پرانا معاشی فریب ہے، جسے دنیا کے کئی حکمران اپنی عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ ماضی میں بھی ان کے محصولات نے صارفین پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا تھا اور چھوٹے کاروباروں کو نقصان پہنچایا تھا۔ مگر طاقتور آوازوں کی بازگشت اکثر کمزور سچائیوں کو دبا دیتی ہے۔ تقریر میں ٹرمپ نے کابل ایئرپورٹ حملے کے مرکزی دہشت گرد کی گرفتاری پر پاکستان کی حکومت کا کھلے عام شکریہ ادا کیا۔ یہ نہیں معلوم کہ یہ پاکستان کا شکریہ تھا یا کہ نئی سازش تاہم یہ جملہ نہ صرف ایک سفارتی اعتراف تھا، بلکہ عالمی طاقتوں کے بدلتے ہوئے کھیل کا اشارہ بھی تھا۔ جب پی ٹی آئی جیسی جماعتیں امریکی لابنگ پر لاکھوں ڈالر بہا رہی تھیں، تب امریکہ کی حکومت عسکری اداروں کے ساتھ خفیہ معاہدے کر رہی تھی۔ یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ عالمی طاقتوں کی پالیسیاں کسی پارٹی کی لابنگ یا مظاہروں سے نہیں بدلتیں، بلکہ یہ پالیسیاں قومی مفادات اور پوشیدہ سفارتی معاہدوں سے چلتی ہیں۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ امریکہ میں چند مظاہروں یا سوشل میڈیا مہمات سے انقلاب آئے گا، انہیں اب اپنی سادگی پر ماتم کرنا چاہیے۔ یہ خطاب پاکستان کے لیے بھی کئی سبق چھوڑ گیا ہے۔ خاص طور پر ان سیاسی جماعتوں کے لیے جو سمجھتی ہیں کہ بیرونی طاقتوں کی مدد سے وہ اپنے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ سامراجی طاقتیں صرف اپنے مفادات کی دوست ہوتی ہیں، کسی جماعت، لیڈر یا نظریے کی نہیں۔ اسطرح ٹرمپ نے جب “کسی نہ کسی طریقے سے گرین لینڈ حاصل کرنے” کا اعلان کیا، تو یہ الفاظ ہمیں انیسویں صدی کی سامراجی تحریکوں کی یاد دلاتے ہیں۔ آج کا سامراج پہلے کی طرح توپوں اور جنگوں کے ذریعے نہیں، بلکہ معاشی پابندیوں، سفارتی معاہدوں اور نام نہاد آزادی کے وعدوں کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے۔ یہ بیانیہ ہمیں اس حقیقت کی یاد دلاتا ہے کہ عالمی سیاست میں طاقتور ہمیشہ کمزور کو نگلنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کے حکمران اپنے سامراجی عزائم کو “جمہوریت” اور “عالمی امن” جیسے خوشنما نعروں میں لپیٹ دیتے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ اعلان کہ “ہر بچہ بالکل کامل ہے، جیسا کہ خدا نے اسے بنایا ہے” بظاہر ایک مذہبی موقف لگتا ہے، مگر اس کے پیچھے ایک گہری سیاسی چال چھپی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حکمران عوام کے جذباتی مسائل کو اپنی سیاست کا حصہ بناتے ہیں، تو ان کا مقصد انسانی بھلائی نہیں بلکہ اپنی سیاسی طاقت کو مستحکم کرنا ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پولیس قاتلوں کے لیے لازمی سزائے موت کا مطالبہ کیا، مگر یہ وہی شخص ہے جس نے جنوری 6 کے حملے میں ملوث ہزاروں افراد کو معافی دی—جن میں کئی پولیس پر حملے کے مرتکب تھے۔ یہ وہی دوغلا پن ہے جسے تاریخ میں ہمیشہ طاقتور حکمرانوں کا خاصہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ سوشل سیکیورٹی کے ڈیٹا بیس میں 3.5 ملین افراد 140 سے 149 سال کے ہیں اور ان میں سے کئی کو رقم دی جا رہی ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ یہ معلومات ایک غیر مصدقہ چارٹ سے لی گئی ہیں جو ایلون مسک نے X (سابقہ ٹویٹر) پر شیئر کیا تھا۔ سوشل سیکیورٹی کے حکام کے مطابق، 100 سال سے زائد عمر کے وہ افراد جن کے ریکارڈ میں موت کی تاریخ درج نہیں، ضروری نہیں کہ وہ فوائد حاصل کر رہے ہوں۔ اصل اعداد و شمار کے مطابق، 99 سال اور اس سے زائد عمر کے صرف 89,000 افراد سوشل سیکیورٹی کے فوائد لے رہے ہیں۔

ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ہم نے سیکڑوں ارب ڈالر کے فراڈ کا سراغ لگایا ہے۔ جبکہ حقیقتمیں یہ دعویٰ مبالغہ آمیزی پر مبنی ہے۔ ٹرمپ کے بنائے گئے “ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی” (DOGE) نے صرف $105 ارب کی ممکنہ بچت ظاہر کی ہے، جبکہ فراہم کردہ شواہد صرف $20 ارب کے ہیں۔ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں 21 ملین افرادامریکہ میں داخل ہوئے، جن میں سے کئی خطرناک مجرم ہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہ تعداد مبالغہ آمیز ہے۔ امریکی سرحدی حکام کے مطابق، 2021 سے 2025 کے درمیان تقریباً 10.4 ملین غیر قانونی سرحدی کراسنگ کے واقعات رپورٹ ہوئے، لیکن یہ انفرادی افراد کی تعداد نہیں بلکہ ایونٹس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ہم ٹیرف کے ذریعےکھربوں ڈالر کمائیں گے جو بے مثال ملازمتیں پیدا کریں گے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جوکہ ٹرمپ کی سابقہ پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2018 میں عائد کردہ ٹیرف کی وجہ سے مقامی صنعتوں کو وقتی فائدہ ضرور پہنچا، لیکن صارفین کو زیادہ قیمتیں ادا کرنی پڑیں، جس سے معیشت کو نقصان ہوا۔ یوکرین پر امریکی اخراجات پر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ہمنے یوکرین پر شاید $350 بلین خرچ کیے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، یوکرین کو دی جانے والی امداد $183 بلین ہے، جبکہ یورپی یونین نے $145 بلین فراہم کیے۔ فینٹینائل اور سرحدی تحفظ کے حوالہ سے ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ میکسیکو اور کینیڈا سے پہلے کبھی نہ دیکھی جانے والی مقدار میں فینٹینائلامریکہ میں آیا، جس سے لاکھوں شہری ہلاک ہوئے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فینٹینائل ایک بڑا مسئلہ ہے، لیکن زیادہ تر اسمگلنگ قانونی تجارتی راستوں کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ غیر قانونی مہاجرین کے ذریعے۔ اس ضمن میں جو اعداد و شمار ہیں اسکے مطابق مالی سال 2024 میں، امریکی حکام نے 22,000 پاؤنڈ فینٹینائل ضبط کیا۔ اس میں سے صرف 43 پاؤنڈ (1% سے بھی کم) امریکہ-کینیڈا کی سرحد پر ضبط ہوا۔ فینٹینائل کی زیادہ مقدار لینے سے ہونے والی اموات 2023 میں 77,000 سے کم ہو کر 2024 میں 53,000 ہو چکی ہیں۔ ٹرمپ کا پیرس ماحولیاتی معاہدے پر نقصان کا دعویٰ کہ پیرس معاہدہ ہمیں کھربوں ڈالر کانقصان پہنچا رہا تھا۔ جبکہ حقیقت میں یہ دعویٰ غیر مصدقہ ہے۔ ایک معاشی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ اگر امریکہ پیرس معاہدے کے تحت فوسل فیول کا استعمال کم کرے تو اس سے پیداوار پر اثر پڑ سکتا ہے، لیکن اس میں متبادل توانائی سے پیدا ہونے والے مواقع کا ذکر نہیں تھا۔ عوامی رائے اور سمت سے متعلق ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اب، جدید تاریخمیں پہلی بار، زیادہ امریکیوں کا ماننا ہے کہ ہمارا ملک درست سمت میں جا رہا ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ دعویٰ مخصوص سروے پر مبنی ہے۔ جبکہ دو حالیہ سروے میں مثبت رائے دی گئی، لیکن 17 دیگر سروے ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ اس ضمن میں RealClearPolitics کے اعداد و شمار کے مطابق، دو سروے میں “درست سمت” کے حامی زیادہ تھے، لیکن دیگر 17 پولز میں “غلط سمت” کے حامیوں کی برتری تھی۔

ٹرمپ نے اپنی تقریر کا اختتام ان الفاظ پر کیا: امریکہ کا سنہری دور ابھی شروع ہوا ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ سنہری دور کس کے لیے ہے؟ کیا یہ صرف سرمایہ داروں، اسلحہ سازوں، اور لابنگ فرموں کے لیے ہوگا؟ یا پھر اس کا کچھ حصہ عام امریکی عوام اور پسے ہوئے طبقات تک بھی پہنچے گا؟ یہ خطاب ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ سیاست میں الفاظ کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہے۔ ایک اچھے مقرر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ سچ بولے، بلکہ ضروری یہ ہے کہ وہ اپنے الفاظ کو اس انداز میں پیش کرے کہ وہ سامعین کو حقیقت کا عکس لگیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب محض ایک تقریر نہیں تھا بلکہ یہ تاریخ کے دھارے کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہ سمت واقعی “سنہری دور” کی جانب لے جا رہی ہے یا یہ پرانے دھوکے کی نئی تجدید ہے؟ یہ فیصلہ تاریخ کرے گی، مگر عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کس بیانیے پر یقین کرتے ہیں—حقائق پر یا خوشنما فریب پر؟


اپنا تبصرہ لکھیں