امریکہ اور روس کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات کے بعد، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غلط طور پر یوکرین کو جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔
بی بی سی کے مطابق، منگل 19 فروری 2025 کو، امریکی صدر نے فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ مار-اے-لاگو پر صحافیوں سے گفتگو کے دوران دعویٰ کیا کہ ان کے پاس روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ختم کرنے کی “طاقت” ہے۔
جب ان سے یوکرین کے متعلق سوال کیا گیا، جو مذاکرات میں شامل نہ کیے جانے پر “مایوس” محسوس کر رہا تھا، تو انہوں نے کہا: “آج میں نے سنا، ‘اوہ، ہمیں مدعو نہیں کیا گیا۔’ بھئی، تم وہاں تین سال سے ہو… تمہیں یہ جنگ کبھی شروع ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ تم کوئی معاہدہ کر سکتے تھے۔”
مزید برآں، ٹرمپ نے روسی صدر سے ملاقات کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ “ممکنہ طور پر” فروری کے آخر میں ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کریں گے۔
ریپبلکن صدر نے یوکرینی صدر وولوڈیمیر زیلنسکی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ مذاکرات کی میز پر جگہ مانگ رہے ہیں لیکن عوام کو رائے دینے کا حق نہیں دے رہے، کیونکہ ملک میں انتخابات نہیں کروائے جا رہے۔
78 سالہ ٹرمپ نے کہا: “ہمارے پاس ایسی صورتحال ہے جہاں یوکرین میں انتخابات نہیں ہوئے، جہاں ملک میں عملی طور پر مارشل لا نافذ ہے، اور جہاں یوکرین کے رہنما کی مقبولیت، میرا یہ کہنا اچھا نہیں لگ رہا، مگر صرف 4% رہ گئی ہے۔ وہاں کا ملک تباہ ہو چکا ہے، زیادہ تر شہر زمین بوس ہو چکے ہیں، عمارتیں گر چکی ہیں، پورا منظر ایک بڑے انہدامی مقام کی طرح نظر آتا ہے۔”
دوسری جانب، زیلنسکی نے جرمن نشریاتی ادارے ARD کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ وہ یوکرین کے صدر عوام کے ووٹوں سے بنے ہیں، کیونکہ 73% عوام نے انہیں منتخب کیا تھا، اور آج بھی اکثریت ان کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے خود کو “محب وطن” قرار دیا جو اپنے ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ زیلنسکی 2019 میں یوکرین کے صدر منتخب ہوئے تھے اور ان کی مدت پانچ سال کی تھی، مگر مارشل لا کے باعث وہ اب بھی اقتدار میں موجود ہیں۔