انسانیت کی معراج: پرنس کریم آغا خان کی زندگی کا فلسفہ اور روحانی روشنی کی منتقلی کا سفر !
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
زندگی کے فلسفے کو اگر انسان کی بھلائی اور فلاح و بہبود سے جوڑا جائے، تو تاریخ میں کچھ ایسی ہستیاں نظر آتی ہیں جنہوں نے اپنی ذات سے بالاتر ہو کر دوسروں کے لیے زندگی وقف کی۔ ان میں ایک نمایاں نام پرنس کریم آغا خان کا ہے، جن کی شخصیت انسانیت کے لیے ایک روشنی کی مانند ہے۔ لیکن کیا ہم نے اپنی زندگی بامقصد گزاری؟یہ سوال ہر شخص کو خود سے کرنا چاہیے: ہم نے اپنی زندگی میں کتنا وقت دوسروں کی مدد کے لیے وقف کیا؟
ہم نے اپنی کامیابی میں دوسروں کو کتنا شامل کیا؟ کیا ہم صرف اپنے لیے جیتے رہے، یا ہم نے دنیا میں کچھ ایسا چھوڑا کہ جب ہم نہ ہوں، تب بھی لوگ ہمیں یاد کریں؟
پرنس کریم آغا خان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ کامیابی اور دولت کا اصل امتحان یہ نہیں کہ ہم نے کتنا کمایا، بلکہ یہ ہے کہ ہم نے کتنا بانٹا۔ ان کی طرح، اگر ہم اپنی دولت، علم، اور وسائل کو دوسروں کی بہتری کے لیے استعمال کریں، تو یہ دنیا ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔ ہم سب کو ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح یاد رکھے جائیں گے؟ ایک ایسے شخص کے طور پر جو صرف اپنے لیے جیا، یا ایک ایسے انسان کے طور پر جس نے دوسروں کی زندگی بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا؟ یہی وہ وراثت ہے جو آغا خان چہارم نے چھوڑی، اور یہی وہ سبق ہے جو ہمیں اپنے دل میں بٹھا لینا چاہیے۔ زندگی صرف کامیابی اور دولت کے گرد نہیں گھومتی، بلکہ اس کا ایک اور پہلو محبت، احساس، اور تعلقات میں بھی پوشیدہ ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی وقت محبت کی شدت سے گزرتا ہے، مگر جب یہ تعلق ٹوٹ جاتا ہے تو یادوں کا بوجھ ایک بے رحم حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔ محبت کی ٹوٹی یادیں بعض اوقات اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ کچھ مخصوص مقامات، خوشبوئیں، یا گانے ہمیں ماضی کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں، پرنس کریم آغا خان آج اس دنیا سے کوچ کرگئے مگر وہ محبت کی یادوں کے ایسے ہی انگنت نقوش چھوڑکر چلے گئے ہیں جوکہ کئی صدیوں تک انکی محبت کے اس عمل کی یاد دلاتے رہینگے پرنس کریم آغا خان کی زندگی کا سب سے اہم سبق یہ تھا کہ خدمتِ خلق کو ہر چیز پر ترجیح دی جائے۔ وہ مذہب کو ایک ایسا ذریعہ سمجھتے تھے جو انسانوں کو جوڑنے کے لیے آیا ہے، نہ کہ بانٹنے کے لیے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر ہم اچھے انسان نہیں بن سکتے، تو ہم اچھے مسلمان کیسے بن سکتے ہیں؟ ان کا فلسفہ صرف اسماعیلی برادری تک محدود نہیں تھا بلکہ پوری انسانیت کے لیے تھا۔ اور انہوں نے اپنے اس عمل سے یہ سب کچھ کرکے دکھایا
زندگی ایک ایسا سفر ہے جو وقت کی سڑک پر مسلسل آگے بڑھتا رہتا ہے، جہاں راستے بدلتے ہیں، منزلیں تبدیل ہوتی ہیں، اور ہم خود بھی، وقت کے ساتھ ساتھ، بدلتے چلے جاتے ہیں۔ مگر بعض اوقات، کچھ راستے، کچھ لمحے، اور کچھ لوگ ہماری زندگی میں ایسے نقش چھوڑ جاتے ہیں کہ چاہے ہم جتنا بھی آگے بڑھنے کی کوشش کریں، وہ یادیں ہمارے ساتھ چلتی رہتی ہیں، جیسے سایہ ہماری موجودگی کا گواہ ہو۔ محبت بھی انہی حقیقتوں میں سے ایک ہے، جو کسی کے دل میں ایک خوبصورت خواب کی مانند جنم لیتی ہے، مگر جب وہ خواب ٹوٹتا ہے تو اس کے ٹکڑے ہماری روح میں چبھتے رہتے ہیں۔ لیکن محبت ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو اس کی اصل ذات سے متعارف کراتی ہے۔ آغا خان کے دل میں دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ تھا سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہونے والا بالآخر کیوں ایسا تھا کہ وہ ہرکسی سے محبت کرتا تھا محبت صرف ایک جذبہ نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل تجربہ ہے، جو انسان کے شعور کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے۔ یونانی فلسفیوں نے محبت کو کئی اقسام میں تقسیم کیا، جیسے ایروس (Eros) جو جسمانی محبت کی علامت ہے، فیلیا (Philia) جو دوستی کی محبت ہے، اور اگاپے (Agape) جو بے لوث اور غیر مشروط محبت کو ظاہر کرتی ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ جب کوئی انسان کسی سے محبت کرتا ہے، تو وہ ان تمام اقسام کو لیکر کسی نہ کسی انداز میں جیتا ہے۔ اپنے خاندان اور اپنی قوم سے محبت کے ساتھ ساتھ انسانیت سے محبت کا جذبہ ہر کسی میں معجزن نہیں ہوتا۔ ہم محبت کو ایک اختتام کے طور پر دیکھتے ہیں، حالانکہ یہ محض ایک عمل ہے، جو ہماری ذات کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے۔ جب محبت ٹوٹتی ہے، تو انسان خود کو کھویا ہوا محسوس کرتا ہے، جیسے وہ کسی گہرے سمندر میں بہک رہا ہو، جہاں کنارے کا کوئی پتا نہیں ہوتا۔ آغا خان کی یادیں ساٹھ سالا امامت کا دور اسطرح کی کئی یادوں سے جڑا ہوا ہے
یہ حیرت انگیز بات ہے کہ یادیں ہمارے ساتھ کس طرح جُڑ جاتی ہیں۔ کچھ مقامات، کچھ خوشبوئیں، کچھ گانے، کچھ رنگ—سب کچھ ہمیں ماضی کی طرف دھکیلنے لگتے ہیں، اور ہم بے بس ہو کر ان یادوں میں کھو جاتے ہیں۔ محبت جب ماضی بن جائے، تو زندگی کا ہر چھوٹا لمحہ ایک نئے درد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ انکی یہ یادیں اور انکے نقوش نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر پاک وہند افریقہ ہرجگہ پر موجود ہیں
کچھ جگہوں پر جا کر ماضی کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، یہ بالکل فطری بات ہے۔ انسان کا ذہن ایسی چیزوں کو محفوظ کر لیتا ہے جو کسی مخصوص وقت میں جذباتی شدت سے جُڑی ہوتی ہیں۔ آپ کے لیے یہ مقامات محض زمین کے کچھ حصے نہیں، بلکہ وہ ایک پوری دنیا ہیں، جہاں آپ نے کسی کے ساتھ اپنی ہنسی، اپنی خوشیاں، اپنے خواب بانٹے ہوں۔ ایسی کئی یادیں انہوں نے عمارتوں اور اداروں کی صورت میں چھوڑی ہیں ھوکہ انکی انسانیت سے محبت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں جوکہ یقیننا ہمیں پرنس کریم آغا خان کی انسانیت سے محبت کی یاد دلاتے رہینگے دراصل پرنس کریم آغا خان ایک مصور تھے ، اور انکی انسانیت سے محبت کے شاہکار دنیا بھر میں مختلف صورتوں میں آج بھی ہمارے سامنے موجود ہیں جسپر انہوں نے ساٹھ دہائیوں تک کام کیا اور انہوں نے اس نامکمل تصویر کو ایک نیا کینوس دے کر زندگی کو ایک نئے انداز میں پینٹ کیا۔ پرنس کریم آغا خان نہ صرف اسماعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشوا تھے، بلکہ وہ عالمی ترقی، تعلیمی فلاح، صحت عامہ، اور ثقافتی تحفظ کے میدان میں ایک عہد ساز شخصیت بھی تھے۔ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری فلاحی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے، جو 30 سے زائد ممالک میں صحت، تعلیم، رہائش، اور اقتصادی ترقی کے لیے کام کر رہی ہے۔ جو آج بھی جاری ہے
آغا خان کا فلسفہ اس بنیادی اصول پر کھڑا ہے کہ ترقی صرف دولت سے نہیں، بلکہ علم، انصاف، اور سماجی ہم آہنگی سے ممکن ہے۔ ان کا نظریہ “خود انحصاری اور پائیدار ترقی” پر مبنی ہے، جہاں وہ قوموں کو خیرات کا محتاج بنانے کے بجائے ان کے اندر خود کفالت کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے منصوبے خیرات کے بجائے انسانی سرمائے کی تعمیر پر توجہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں آغا خان فاؤنڈیشن اور آغا خان یونیورسٹی جیسے ادارے صحت اور تعلیم میں انقلابی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خاص طور پر آغا خان یونیورسٹی اسپتال، جو نہ صرف جدید طبی سہولیات فراہم کرتا ہے بلکہ طبی تعلیم میں بھی عالمی معیار قائم کر رہا ہے۔ اسی طرح، شمالی علاقہ جات میں اسکولوں اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے منصوبے ان علاقوں میں ترقی کا باعث بن رہے ہیں، جہاں ریاستی وسائل کمزور پڑ جاتے ہیں۔ یہ سوچنا ضروری ہے کہ آغا خان جیسے رہنما کیوں اپنی دولت کو کسی ذاتی عیش و عشرت میں استعمال کرنے کے بجائے دنیا کے پسماندہ علاقوں میں سرمایہ کاری میں صرف کرتے تھے؟ اس کا جواب ان کے فلسفۂ زندگی میں ہے، جو اسلام کی اس تعلیم پر مبنی ہے کہ “انسان کا اصل سرمایہ اس کا علم اور اس کی خدمت ہے، نہ کہ اس کی دولت”۔
کسی رہنما کی اصل کامیابی اس وقت ہوتی ہے جب اس کے پیروکار اس کے نظریات کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ اسی روشنی کو لے کر آگے بڑھنے والوں میں انکے بے شمار پیرو کار ہیں جنہوں نے انکے نقش قدم کو اپنے تئیں اپنایا مگر میں ذاتی طور ایک شخصیت کو جانتا ہوں وہ ہیں ڈیلس کے امیر مکھانی، جنہوں نے ان سے متاثر ہوکر پاکستان میں فلاحی کاموں کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا۔ امیر مکھانی اسی سوچ کے تحت پاکستان میں فلاحی کاموں کا ایک اہم حصہ بن چکے ہیں۔ “ مکھانی ویلفیر” کے بینر تلے پاکستان میں ان کی خدمات تعلیم، صحت، اور خصوصنا خواتین کو مضبوط کرنے او غربت کے خاتمے کے منصوبوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ امیر مکھانی پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں نمایاں کام کررہے ہیں ، جہاں وہ اسکولوں، اسپتالوں، اور رفاہی تنظیموں کی مدد کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان میں انکی جانب سے قائم کردہ “مکھانی ویلفیئر” تنظیم نے سینکڑوں خواتین کو پاکستان میں خودمختاری کی راہ پر گامزن کیا ہے، جو نہ صرف مالی طور پر خود کفیل ہو رہی ہیں بلکہ اپنے خاندانوں اور معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لا رہی ہیں۔ امیر مکھانی کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی فلاحی سرگرمیوں کے لیے کسی سے چندہ نہیں لیتے، بلکہ اپنے وسائل سے ہی ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ رویہ ہمیں آغا خان کی اس تعلیم کی یاد دلاتا ہے کہ حقیقی خدمت وہی ہے جو ذاتی مفاد سے بالاتر ہو۔ آغا خان کے پیروکار امیر مکھانی جیسے لوگ بھی اسی فلسفے سے متاثر ہوکر انسانیت کی خدمت میں جُت گئے۔ پاکستان میں خواتین کی ترقی کے لیے “مکھانی ویلفیئر” کے ذریعہ ابتک سینکڑوں خواتین کو معاشی خودمختاری دی جاچکی ہے ۔ امیر مکھانی نہ صرف ایک کامیاب بزنس مین ہیں بلکہ وہ ایک انسان دوست شخصیت بھی ہیں، جو کسی سے چندہ لیے بغیر اپنی تنظیم چلارہے ہیں۔ یہ وہی جذبہ ہے جو آغا خان چہارم کی زندگی سے سیکھا جا سکتا ہے: کہ دولت کا اصل مصرف خدمتِ خلق میں ہے، نہ کہ ذاتی تعیشات میں۔پرنس آغا خان کا ایک بنیادی نظریہ یہ تھا کہ ترقی صرف انفراسٹرکچر کی بہتری سے ممکن نہیں، بلکہ لوگوں کے شعور اور سوچ کو بلند کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر کوششیں تعلیمی اداروں کی ترقی اور نوجوانوں کی فکری تربیت پر مرکوز ہیں۔دنیا بھر میں، خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں، فلاحی کام کرنا ایک بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ بدعنوانی، بیوروکریسی، اور سماجی مسائل اکثر فلاحی کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ مگر انہوں نے اپنے اثر رسوخ سے ان کا حل نکالا۔ وہ اس فلسفے کے قائل تھے کہ “اگر ہم صرف مشکلات کا رونا روتے رہیں گے تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ ہمیں خود آگے بڑھ کر عمل کرنا ہوگا۔”اور پرنس کریم آغا خان نے یہ عمل کرکے دکھایا
اسطرح اگر ہم تاریخی تناظر میں دیکھیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں دو طرح کے لوگ رہے ہیں—ایک وہ جو اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں، اور دوسرے وہ جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔پرنس کریم آغا خان دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے تھے، جو اپنے مفادات کے بجائے، سماج کے مفادات کو اہمیت دیتے تھے۔فلسفہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کسی بھی سماج میں تبدیلی کا آغاز سوچ سے ہوتا ہے۔ اگر ہم صرف غربت، بیماری، اور جہالت کو بدقسمتی سمجھ کر قبول کر لیں، تو ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر ہم ان چیلنجز کو حل کرنے کی کوشش کریں، تو ہم اپنے ارد گرد کی دنیا کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہم سب سوچتے ہیں کہ ترقی صرف حکومتوں کی ذمہ داری ہے؟ لیکن یہ درست نہیں کیونکہ آغا خان جیسے لوگ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ترقی صرف حکومتی پالیسیوں پر منحصر نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ان کے فلاحی کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر انسان میں خدمت کا جذبہ ہو، تو وہ خود ایک تبدیلی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
اب انکے بڑے بیٹے پرنس رحیم آغا خان، جو اپنے والد پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارمکے جانشین کے طور پر 50ویں امام مقرر ہوئے ہیں، وہ نہ صرف اپنی خاندانی روحانی وراثت کے امین ہیں بلکہ دکھی انسانیت کا درد بھی اپنے والد کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ فلاحی، تعلیمی، صحت، ماحولیاتی اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں گزرا ہے، جہاں انہوں نے ہمیشہ کمزور اور پسے ہوئے طبقوں کی بہتری کے لیے کام کیا ہے۔ ان سے بھی یہ امید کی جا سکتی ہے کہ پرنس رحیم آغا خان کی قیادت میں آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) مزید وسعت اختیار کرے گا، اور وہ بھی تعلیم، صحت اور غربت کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
اسوقت ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں سماجی مسائل پیچیدہ ہو چکے ہیں، اور دنیا کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو نہ صرف مسائل کو سمجھ سکیں، بلکہ ان کے حل کے لیے عملی اقدامات بھی کریں۔ پرنس کریم آغا خان کی تعلیمات اور خدمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ اصل کامیابی وہ نہیں جو صرف فرد کے لیے ہو، بلکہ وہ ہے جو پوری انسانیت کے لیے ہو۔ زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ ہم سب ایک دن اس دنیا سے چلے جائیں گے، مگر سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح یاد رکھے جائیں گے؟ ایک ایسے شخص کے طور پر جو صرف اپنی ذات کے لیے جیا، یا ایک ایسے انسان کے طور پر جس نے دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کوششیں کیں؟
یہی وہ سبق ہے جو پرنس کریم آغا خان، نے ہمیں دیا ہے اور زندگی کے تجربات ہمیں سکھاتے ہیں: کہ اصل کامیابی دوسروں کی خدمت، محبت کو سمجھنے، اور آگے بڑھنے میں ہے۔
ہم سب کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی—یہ محض ایک باب ہے، اور ہمیں اپنی زندگی کے باقی صفحات کو خود لکھنے کا اختیار حاصل ہے۔ اگر ہم ایک بہتر دنیا چاہتے ہیں، تو ہمیں صرف تنقید کرنے یا شکوہ کرنے کے بجائے، خود بھی کسی نہ کسی سطح پر فلاحی کاموں میں شامل ہونا ہوگا۔ کیونکہ اصل خوشی اور اصل ترقی وہی ہے جو دوسروں کے