بھیڑیوں کا معاہدہ: پاکستانی اور عالمی سیاست، طاقت کا کھیل، اور جنگل کا قانون!


بھیڑیوں کا معاہدہ: پاکستانی اور عالمی سیاست، طاقت کا کھیل، اور جنگل کا قانون!

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

کہا جاتا ہے کہ ایران کی سخت سردیوں میں، جب برف ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے اور زندگی جیسے تھم سی جاتی ہے، تو بھیڑیے بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں۔ شکار ناپید ہو جاتا ہے، اور زندہ رہنے کی جبلت انہیں ایک بے رحم اصول اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ ایک دائرے میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو گھورتے ہیں، انتظار کرتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی کمزور بھیڑیا بھوک کے مارے گر پڑتا ہے، باقی سب اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔ ایک سابقہ ساتھی اگلا شکار بن جاتا ہے، اور زندہ رہنے کی وحشیانہ خواہش ہر رشتے، ہر اتحاد کو چور چور کر دیتی ہے۔ فارسی میں اسے “گرگِ آشتی” یعنی “بھیڑیوں کا معاہدہ” کہا جاتا ہے—ایسا معاہدہ جو صرف طاقتور کو زندہ رہنے دیتا ہے، اور کمزور کو کھا جاتا ہے۔

Screenshot

یہ منظر ہمیں اپنے ارد گرد کی دنیا پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ کیا یہ دنیا ایک وسیع جنگل نہیں جہاں ہمیشہ کمزور طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے؟ گرگِ آشتی کا اصول صرف حیوانات کی دنیا تک محدود نہیں بلکہ انسانی معاشروں، عالمی سیاست، اور خاص طور پر پاکستان کی تاریخ میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔ طاقتور ہمیشہ کمزور کو کچلتا ہے، چاہے وہ کسی ملک کا حکمران ہو، کوئی عالمی سپر پاور ہو، یا عام آدمی جو اپنے اردگرد کے لوگوں پر اپنا تسلط جمانا چاہتا ہو۔

یہ صرف بھیڑیوں کی کہانی نہیں، بلکہ انسانیت کی تلخ حقیقت ہے۔ ہم اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں، لیکن ہم نے اس دنیا کو ایک جنگل بنا دیا ہے جہاں طاقت ہی واحد قانون ہے، اور کمزور محض چارہ ہیں۔ ہر شخص کسی نہ کسی طریقے سے گرگِ آشتی کا حصہ ہے—چاہے وہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھا ہو، بازار میں لین دین کر رہا ہو، یا دفتر میں معاہدوں پر دستخط کر رہا ہو۔

پاکستانی سیاست کے بھیڑیے

پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے لاتعداد واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں طاقتوروں نے کمزوروں کو بے رحمی سے ختم کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھ لیں—ایک عوامی لیڈر جسے بھیڑیوں کے ایک گروہ نے عدالتی قتل کے ذریعے ختم کر دیا۔ بھٹو پاکستان کے آئین کے معمار تھے، ایٹمی پروگرام کے بانی تھے، اور ایک بکھری ہوئی قوم کو جوڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر ان کے مخالفین، جو طاقت کے نشے میں چور تھے، اپنی حکمرانی کے سوا کچھ نہیں چاہتے تھے۔ ایک جانبدار عدالتی فیصلے کے ذریعے انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، اور انصاف کا چہرہ آج تک اس دھبے سے داغدار ہے۔ ان کی پھانسی کے پیچھے وہی بھیڑیے تھے جو ہمیشہ کمزوروں پر جھپٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

پھر بے نظیر بھٹو آئیں، جنہوں نے جابرانہ سیاست کو للکارا۔ انہیں بھی دن دہاڑے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ کس نے قتل کیا؟ کیوں؟ کوئی جواب نہیں، صرف خاموشی۔ وہ جمہوریت کی علمبردار تھیں، آمریت کے خلاف کھڑی ہوئیں، لیکن ان کا انجام بھی وہی ہوا جو طاقتوروں کے کھیل میں ہوتا ہے۔ ان سے پہلے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں گولی مار دی گئی۔ نہ قاتل ملے، نہ انصاف ہوا، اور تمام شواہد مٹا دیے گئے—کیونکہ پاکستان میں قانون نہیں، طاقت چلتی ہے۔

یہی کھیل نواز شریف کے ساتھ بھی کھیلا گیا۔ انہیں طاقت سے بے دخل کیا گیا، قید میں ڈالا گیا، جلا وطن کیا گیا، اور بعد میں مشروط طور پر واپسی کی اجازت دی گئی۔ پھر ایک وقت آیا جب طاقتوروں نے دو بڑی جماعتوں کے درمیان سمجھوتہ ہونے دیا، اور اس کے بعد ایک نئی قوت، عمران خان، کو میدان میں اتارا گیا۔ انہیں اقتدار دیا گیا، لیکن جب وہ بھیڑیوں کی شرائط پر نہ چلے، تو انہیں بھی ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اور اب ایک بار پھر زرداری اور نواز شریف اقتدار میں واپس آ چکے ہیں، جبکہ عمران خان شکار بن چکے ہیں۔ یہ جنگل کا قانون ہے: کمزور ہمیشہ شکار بنتا ہے۔

آج عمران خان انہی بھیڑیوں میں گھِر چکے ہیں۔ جمہوریت کہتی ہے کہ طاقت عوام کے پاس ہے، مگر عوام کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہوتی۔ وہ تعداد میں زیادہ ہو سکتے ہیں، مگر حقیقت میں کمزور ہوتے ہیں۔ چاہے وہ پاکستانی سیاست ہو، کشمیر کی گلیاں ہوں، فلسطین کے کوچے ہوں، یا دنیا کا کوئی اور مظلوم خطہ—ہر جگہ طاقتور فیصلہ کرتے ہیں کہ کون زندہ رہے گا اور کون قربان کر دیا جائے گا۔

عالمی سیاست میں بھیڑیوں کا معاہدہ

عالمی سطح پر بھی یہی قانون لاگو ہوتا ہے۔ اسرائیل دہائیوں سے فلسطینیوں کو اپنی طاقت تلے روند رہا ہے، جبکہ بھارت نے کشمیر میں ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ سیاست میں کمزور جماعتیں ختم کر دی جاتی ہیں، معیشت میں غریبوں کو کچلا جاتا ہے، جنگوں میں معصوموں کا خون بہایا جاتا ہے، اور بین الاقوامی تعلقات میں صرف وہی ملک زندہ رہتے ہیں جن کے پاس ہتھیار، پیسہ، اور وسائل ہوں۔ باقی سب ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ صدام حسین اور معمر قذافی کے ساتھ کیا ہوا۔ پاکستان میں بھی اشرافیہ ہمیشہ غریب عوام کا استحصال کرتی رہی ہے۔ بھیڑیے ہمیشہ کمزوروں کو تاکتے رہتے ہیں، انتظار کرتے ہیں کہ کب وہ گِر پڑیں تاکہ انہیں نگل لیا جائے۔

کیا یہ واقعی انسانی معاشرہ ہے؟ یا محض بھیڑیوں کا جنگل؟

پاکستان میں قوانین بھیڑیے بناتے ہیں اور جب چاہیں انہیں توڑ دیتے ہیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسی بھارت کو دیکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے: وہاں کا نظام کیوں نہیں اسی طرح ٹوٹتا؟ کیا بھارت میں بھی طاقتوروں کا قبضہ نہیں؟ وہاں بھی سیاست میں خون بہا ہے—مہاتما گاندھی قتل ہوئے، اندرا گاندھی کو ان کے سکھ محافظوں نے گولی مار دی، راجیو گاندھی خودکش حملے میں مارے گئے—لیکن ان کی جمہوریت پھر بھی نہیں ٹوٹی۔ کیوں؟ کیونکہ بھارت میں نظام کو مضبوط کیا گیا۔ وہاں جمہوریت اداروں پر کھڑی ہے، شخصیات پر نہیں۔ انہوں نے جاگیرداری ختم کی، فوج کو آئینی دائرے میں محدود رکھا۔ جبکہ پاکستان میں جاگیرداروں کو سیاست میں مسلط کیا گیا اور فوج کو تمام اداروں پر حاوی کر دیا گیا۔ ملک کو جغرافیائی طور پر ہی نہیں، نظریاتی طور پر بھی تقسیم کر دیا گیا—فرقہ واریت اور نفرت کو جان بوجھ کر ہوا دی گئی تاکہ عوام کو آپس میں الجھا کر رکھا جا سکے۔

دنیا بھیڑیوں کا جنگل ہے

دنیا بھی اسی وحشی اصول پر چل رہی ہے۔ گرگِ آشتی کا اصول محض ایک کہانی نہیں، بلکہ عالمی سیاست کی بنیاد ہے۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے، تو انہوں نے سفید فام بالادستی کا نعرہ لگایا اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے امریکہ کو نکال لیا۔

یہ وہی امریکہ ہے جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہتا ہے، لیکن جب اقوام متحدہ نے اسرائیل کے مظالم یا امریکی پالیسیوں پر انگلی اٹھائی، تو امریکہ نے جواب دینے کے بجائے اقوام متحدہ سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ یہ فیصلہ پھر ثابت کرتا ہے کہ عالمی سیاست میں انصاف اور اخلاقیات محض نعرے ہیں—حقیقت میں طاقت اور مفادات ہی سب کچھ ہیں۔

یہ دنیا ہمیشہ سے ایک بے رحم جنگل رہی ہے۔ یہاں کمزوروں کی قسمت میں کچلے جانا لکھا جا چکا ہے، اور طاقتوروں کا مقدر حکمرانی بن چکا ہے۔ یہاں اصول نہیں، طاقت چلتی ہے؛ یہاں عدل نہیں، اقتدار کی ہوس فیصلہ کرتی ہے۔ یہاں مظلوموں کی چیخیں ہواؤں میں گم ہو جاتی ہیں، اور انصاف کی راہیں ہمیشہ خون سے رنگی رہتی ہیں۔

یہاں انسانوں کے چہروں پر مسکراہٹیں تو ہیں، مگر دل میں وہی درندگی جو کبھی پتھروں کے زمانے میں تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ تب ہاتھ میں نیزے تھے، اور آج قوانین، معاہدے، سیاست، اور معیشت کے ہتھیار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تب وحشی جانور تھے، اور آج مہذب درندے۔

ہر دور میں بھیڑیے بدلتے رہے، مگر شکار ہمیشہ کمزور ہی رہا۔ کبھی غلامی کے نام پر، کبھی جمہوریت کے پردے میں، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی آزادی کی آڑ میں۔ آج بھی فلسطین کے بچے، کشمیر کے شہداء، روہنگیا کے مہاجر، افریقہ کے بھوکے، اور ان گنت بے بس روحیں اس بھیڑیوں کے قانون کا ایندھن بن رہی ہیں۔

کبھی کسی نے سوچا کہ یہ بھیڑیے پیدا کہاں سے ہوتے ہیں؟ کیا یہ صرف حکمرانوں، جرنیلوں، اور سرمایہ داروں کی صفوں میں پائے جاتے ہیں؟ نہیں، حقیقت تلخ ہے۔ یہ بھیڑیے ہمارے اندر بستے ہیں، ہمارے ضمیر میں، ہمارے فیصلوں میں۔ ہر وہ شخص جو کمزور کا حق چھینتا ہے، جو موقع ملتے ہی بے ایمانی کرتا ہے، جو دوسروں کے زخموں پر اپنے مفاد کی عمارت کھڑی کرتا ہے، وہ بھی ایک بھیڑیا ہی تو ہے۔

ہم نے اپنی زندگیوں میں کتنی بار کسی مجبور کے ساتھ ناانصافی ہوتے دیکھی؟ کتنی بار کسی کا حق چھینا گیا، اور ہم نے خاموشی اختیار کر لی؟ شاید اس لیے کہ ہم بھیڑئیے نہیں بنے، مگر ہم بھی شکار نہیں بننا چاہتے تھے۔ ہم نے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے، تماشائی بننا بہتر سمجھا۔ مگر یاد رکھو! جو ظلم کے خلاف نہیں بولتا، وہ بھی ظالم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

یہ دنیا یونہی چلتی رہے گی، جب تک کوئی کھڑا نہ ہو، جب تک کوئی یہ نہ کہے کہ “اب بس!”

جب تک کوئی یہ فیصلہ نہ کرے کہ وہ جنگل کے اصول نہیں مانے گا، کہ وہ کمزوروں کا سہارا بنے گا، کہ وہ طاقت کے باوجود بھیڑیے بننے سے انکار کر دے گا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس قابل ہیں؟ کیا ہم میں یہ جرات ہے کہ ہم اپنے اندر کے بھیڑیے کو مار سکیں؟ کیا ہم وہ پہلا قدم اٹھا سکتے ہیں جو ظلم کے جنگل کو انصاف کی بستی میں بدل سکے؟

شاید یہی وہ امتحان ہے جو ہمیں دیا گیا ہے۔ شاید اصل کامیاب وہ نہیں جو طاقت کے حصول میں سب کچھ روند دے، بلکہ وہ ہے جو طاقت کے باوجود بھیڑیا نہ بنے، جو دوسروں کو کھانے کے بجائے انہیں جینے کا حق دے۔

دنیا کے جنگل میں یا تو تم شکار ہو، یا شکاری۔ لیکن کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کو یہ جنگل ختم کرنا ہوگا۔ کیا وہ شخص تم ہو؟


اپنا تبصرہ لکھیں