سبز انقلاب کے پردے میں چھپے راز، بند دروازوں کے سودے اور سندھ کی پیاس: ایک سنسنی خیز حقیقت !
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
یہ کیسا تماشا ہے کہ ایک طرف سبز انقلاب کے وعدے ہیں، زمینوں کو سیراب کرنے کے دعوے ہیں، اور دوسری طرف وہی پانی سندھ کے لوگوں سے چھینا جا رہا ہے۔ یہ کیسا فریب ہے کہ دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کا اعلان ہوتا ہے، مگر اس پر کوئی عوامی بحث نہیں، کوئی مشاورت نہیں، کوئی سوال نہیں۔ فیصلہ ہو چکا، منصوبہ بن چکا، اور اب بس عوام کو اس کے فوائد بتانے کا عمل باقی ہے مگر کیا واقعی یہ فائدہ ہے؟ یا پھر کسی اور کے مفادات کی تکمیل؟
صدر مملکت آصف علی زرداری پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ وہ دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کے فیصلے کی حمایت نہیں کرتے، مگر وہی صدر پچھلے سال جولائی میں اپنے ایکس اکاؤنٹ پر “گرین پاکستان” کے نام پر انہی نہروں کی تعمیر کا باضابطہ حکم جاری کرنے کے ٹیوٹ دیتے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ایک طرف اس منصوبے کو متنازعہ کہہ کر مشترکہ مفادات کونسل میں بھیجنے کی بات کرتے ہیں، تو دوسری طرف گرین پاکستان کے حق میں دلائل بھی دیتے ہیں۔ یہ کیسا دوغلا پن ہے؟ کیا سندھ کے عوام واقعی کسی فیصلے کا حصہ ہیں، یا انہیں صرف زبانی بیانات سے بہلایا جا رہا ہے؟
آخر یہ فیصلہ کس کا ہے؟ حکومت کا؟ پیپلز پارٹی کا؟ یا پھر وہی چہرے جو کبھی دکھائی نہیں دیتے، مگر ہر فیصلے کے پیچھے ہوتے ہیں؟ مگر یہ چہرے آپکو صدر زرداری کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں دکھائی دی رہے ہیں، کہ آخر یہ کون ہیں؟

فیصلہ ساز کون؟ یہ اب کوئی راز نہیں کہ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس کے اصل معمار وہی ہیں جو ہر بڑے منصوبے کے پیچھے ہوتے ہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ۔ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کا قیام، اس میں آرمی چیف کی شمولیت، اور پھر بڑے زرعی منصوبے یہ سب ایک ہی کہانی کے مختلف صفحات ہیں۔ بظاہر سب کچھ وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہے، مگر عملی طور پر فیصلے وہی کر رہے ہیں جو ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ یہ نہریں صرف پانی کے بہاؤ کو تبدیل نہیں کریں گی، یہ سندھ کی زرخیز زمینوں کو بنجر کر دیں گی، سندھ کے ہزاروں کسانوں کے روزگار کو ختم کر دیں گی، اور ماحولیاتی تباہی کا سبب بنیں گی۔ اسطرح آباد زمینوں کو بنجر اور بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا یہ پروگرام ہے لیکن کیا ان فیصلوں میں عوام کی کوئی آواز شامل ہے؟ کیا کسانوں سے، سندھ کے عوام سے، ماحولیاتی ماہرین سے کوئی مشاورت ہوئی؟ نہیں۔ کیونکہ جو فیصلے بند کمروں میں ہوتے ہیں، ان میں عوام کی رائے کی گنجائش نہیں ہوتی۔
سندھ کی پیاس، پنجاب کی خوشحالی؟
یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پانی کا یہ بہاؤ کس طرف جا رہا ہے؟ کیا یہ محض ایک زرعی منصوبہ ہے، یا اس کے پیچھے ایک بڑی سیاسی اور معاشی حکمت عملی ہے؟ سندھ کے لوگ چیخ رہے ہیں، وکلا سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، طلبہ اور سیاسی رہنما مظاہرے کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے لوگ بھی دبے لفظوں میں اسپر اعتراض کررہے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں۔ ان کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی، ان کا پانی چھین لیا جائے گا، مگر سرکاری بیانیہ یہی ہوگا کہ “یہ ترقی کا منصوبہ ہے”۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ تاریخ بھری پڑی ہے ایسے فیصلوں سے، جہاں کسی مخصوص خطے کی قیمت پر دوسروں کو نوازا گیا ہو۔ کبھی بڑے ڈیموں کے نام پر، کبھی نہروں کی تعمیر کے بہانے، اور کبھی کسی اور ترقیاتی منصوبے کے تحت۔
صدر ایوب خان اور دریاؤں کی نیلامی: ایک تاریخی دھوکہ
یہ پہلا موقع نہیں جب سندھ کے پانی پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہو۔ یاد کرو 1960 کا وہ دن، جب ایوب خان نے سندھ کے دریا انڈیا کوب بیچ ڈالے۔ اورطانڈیا کے ساتھ کیا “سندھ طاس معاہدہ” وہ زہر تھا جو آج تک سندھ کی زمینوں میں سرایت کر چکا ہے۔ دریائے راوی، بیاس اور ستلج ہاتھ سے نکل گئے، اور پنجاب و سندھ کے زمیندار بے یار و مددگار دیکھتے رہ گئے۔ اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ “یہ ترقی کے لیے ضروری ہے”، مگر حقیقت یہ تھی کہ چند طاقتور افراد کے مفادات کے لیے پوری قوم کو گروی رکھ دیا گیا۔ آج پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ جو کام ایوب خان نے عالمی دباؤ میں اور اپنے مارشلا کے دوام کی خاطر کیا تھا، وہی کچھ آج پاکستان کے حکمران اشٹیبلشمنٹ کی مرضی سے کر رہے ہیں۔ دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کی بات ہو رہی ہے، مگر یہ نہریں سندھ کے لیے نہیں، ان بڑے سرمایہ داروں کے لیے بن رہی ہیں جو زمینوں کو کارپوریٹ فارمنگ میں بدلنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت، خصوصاً سندھ کی معیشت، تقریباً 75 فیصد زراعت پر منحصر ہے۔ اگر پانی ہی نہیں ہوگا، تو کیا بچے گا؟ اور کسان کیا کرے گا؟ نہ کھیت رہیں گے، نہ کھلیان، نہ سبزہ، نہ روزگار۔نہ مزدور کو کام ملے گا، نہ کسان اپنی زمینوں پر ہل چلا سکے گا۔ جو لوگ نسلوں سے کھیتی باڑی کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں، ان کا مستقبل کیا ہوگا؟
یہ فیصلہ کسی ایک فصل کا نہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے رزق کا ہے۔ مگر پیپلز پارٹی جو سندھ کی “وڈیروں کی جماعت” سمجھی جاتی تھی، وہی آج اس منصوبے کو چھوٹے فائدے کے لیے اشٹیبلشمنٹ کو دان کر رہی ہے۔ یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جس کے لیڈر جئے بھٹو کے نعرے لگاتے ہیں، مگر جب سندھ کی زمین اور پانی کی بات آتی ہے، تو خاموش ہو جاتے ہیں۔
فیصلے بند کمروں میں، عوام بے خبر
کیا کوئی عوامی بحث ہوئی؟ نہیں! ، کیا کسانوں سے رائے لی گئی؟ نہیں! ، کیا سندھ اسمبلی میں کھل کر بات ہوئی؟ نہیں! ، کیا ماحولیاتی ماہرین سے مشاورت کی گئی؟ نہیں! یہ فیصلے بند کمروں میں، خفیہ سودوں کے ذریعے کیے جا رہے ہیں۔ عوام کو صرف اتنا بتایا جا رہا ہے کہ “یہ ترقی کا منصوبہ ہے”۔ مگر کیا ترقی کا مطلب چند طاقتور حلقوں کی جیبیں بھرنا ہے، یا پھر سندھ کے لوگوں کو بھی اس کا کوئی فائدہ ملے گا؟
جب اسٹیبلشمنٹ حکم دے، تو پیپلز پارٹی آنکھیں بند کر لیتی ہے
یہ حیران کن نہیں کہ آرمی اسٹیبلشمنٹ اس منصوبے کے پیچھے کھڑی ہے۔ پیپلز پارٹی جو خود کو سندھ کا “محافظ” کہتی ہے، وہی اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر چپ سادھ لیتی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں، ماضی میں بھی پیپلز پارٹی نے اقتدار کی سیاست میں سندھ کے حقوق بیچ دیے۔ سندھ کے جزائر ڈی ایچ اے کو بیچنے کی کوشش کی،۔ ڈی ایچ اے نے 1980 کی دہائی میں صرف 76.2 ایکڑ اراضی سے کراچی میں ہاؤسنگ اسکیم شروع کی تھی، جو اب 8,797 ایکڑ تک پھیل چکی ہے۔ اس وقت اس کے 81,489 ارکان ہیں، جن میں فوجی افسران، شہری اور مرنے والے ارکان کے ورثا شامل ہیں اسطرح تھر کول منصوبہ میں سندھ کے لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا، مگر آج وہاں باہر کے لوگ کام کر رہے ہیں۔ یہی کہانی دریائے سندھ کے پانی کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے۔
میڈیا کی خاموشی، بیانیے کا جبر
میڈیا پر مکمل کنٹرول ہے۔ بڑے چینلز ان موضوعات پر کھل کر بات نہیں کرتے۔ کہیں کوئی لب کشائی کرے تو آواز دبا دی جاتی ہے۔ اخبارات میں بھی وہی کچھ چھپتا ہے جو “منظور شدہ” ہو۔ یہ صرف ایک زرعی منصوبہ نہیں، یہ ایک سوچ کے خلاف جنگ ہے۔ ایسی جنگ جس میں مخالف آوازوں کو خاموش کر دیا جاتا ہے، جہاں سوال کرنے والے ملک دشمن قرار پاتے ہیں، اور جہاں ہر وہ بیانیہ جو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کے خلاف ہو، اسے پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
سندھ کے وارثو، جاگو!
یہ وقت ہے جاگنے کا، یہ وقت ہے سوال کرنے کا!
• سندھ کے کسان، کیا تمہارے بغیر یہ فیصلے ہونے چاہئیں؟
• سندھ کے نوجوان، کیا تمہارا مستقبل ان بند کمروں میں طے ہوگا؟
• سندھ کے سیاستدانوں، کیا تم اب بھی خاموش رہو گے؟
یہ فیصلے سندھ کے لیے پانی یا پیاس کا انتخاب ہیں۔ اگر آج خاموش رہے، تو کل پانی کی ایک بوند کے لیے ترس جاؤ گے۔
یہ فیصلہ اب تمہیں کرنا ہے:
• یا تو اپنی زمین، اپنی زراعت، اپنی نسلوں کے لیے آواز اٹھاؤ!
• یا پھر آنے والے وقت میں اپنی بے بسی پر آنسو بہاؤ!
سندھ کے دریا، تمہاری پہچان ہیں، انہیں بیچنے نہ دو!
آخر میں سوال یہ ہے…
کیا سندھ کے عوام کو ان کا حق ملے گا؟
کیا پیپلز پارٹی واقعی سندھ کے حق میں لڑ رہی ہے، یا پھر اقتدار کی سیاست میں مصروف ہے؟ کیا حکومت واقعی بااختیار ہے، یا یہ صرف ایک کٹھ پتلی ہے جس کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں؟
اور سب سے اہم…
کیا ہم ہمیشہ ان فیصلوں کو خاموشی سے قبول کرتے رہیں گے؟ یا کبھی اس جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے؟
یہ سوال آج نہیں، ہمیشہ کے لیے ہیں۔ مگر شاید جواب دینے کی ہمت اب بھی کسی میں نہیں۔
اسلیئے اے سندھ کے وارثو، جاگو!
تمہارا دریا، جو صدیوں سے تمہاری پہچان تھا،
جس کی لہروں میں سندھ کی تاریخ گونجتی تھی، آج ایک نعرے کی آڑ میں غیروں کے ہاتھوں بیچ دیا گیا! “جیئے بھٹو” کا نعرہ لگا کر، اس مقدس ورثے کو دھوکہ اور فریب میں بدل دیا گیا۔ یہ محض کوئی عام سودا نہیں، بلکہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جس میں ہاتھ زرداری کے تھے، مگر فائدہ اٹھانے والے وہی لوگ تھے، جو ہمیشہ سندھ کو آنکھیں دکھاتے رہے۔ یہ دیکھو، ثبوت تمہارے سامنے ہے! یہ کوئی کہانی نہیں، نہ کوئی افسانہ، یہ حقیقت کا وہ کڑوا آئینہ ہے،
جس میں تمہارا اپنا دریا، تمہاری اپنی آنکھوں کے سامنے بیچ دیا گیا۔
مگر سوال یہ ہے، سندھ کے وارث کب جاگیں گے؟ کب اپنی زمین، اپنے پانی، اور اپنی پہچان کے لیے آواز بلند کریں گے؟