مصنوعی ذہانت کی عالمی دوڑ: ٹرمپ کا ایگزیکٹو آڈر، اور پاکستان کا سکوت !


مصنوعی ذہانت کی عالمی دوڑ: ٹرمپ کا ایگزیکٹو آڈر، اور پاکستان کا سکوت !

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

کہا جاتا ہے کہ وقت کی چادر پر جو قومیں اپنے خوابوں کی نقش گری نہیں کرتیں، وہ تاریخ کے دریاؤں میں بہہ کر ریت کا ذرہ بن جاتی ہیں۔ آج جب دنیا مصنوعی ذہانت (AI) کے سحر انگیز جادو سے اپنے وجود کو نئے معنی دے رہی ہے، انسانیت کے ہاتھوں میں قلم کی جگہ کوڈ نے لے لی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب فکر کے پرندے ڈیٹا کی فضا میں پرواز کر رہے ہیں، اور علم کے شجر کی جڑیں الگورتھم کی زمین میں پیوست ہو چکی ہیں

یہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسا تاریخی صدارتی حکم نامہ جاری کیا ہے، جو نہ صرف امریکہ میں تعلیم کے مستقبل کو نئی سمت دے سکتا ہے بلکہ پوری دنیا، خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی ہے۔ ٹرمپ کے اس حکم نامے کا مقصد اسکول کی سطح پر مصنوعی ذہانت (AI) کو تعلیم کا حصہ بنانا ہے تاکہ نئی نسل کو ٹیکنالوجی کی دنیا کے لیے تیار کیا جا سکے۔ یہ حکم نامہ ناصرف تعلیمی اداروں میں AI کورسز، ٹریننگ، اور اپرنٹس شپ مواقع کو فروغ دیتا ہے بلکہ وفاقی سطح پر اداروں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ اس شعبے میں تحقیقی ترجیحات بھی متعین کریں۔

صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑا قدم ہے، کیونکہ AI ہی ہم کو مستقبل کا راستہ دکھا رہی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اربوں کھربوں ڈالر اس شعبے میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کا AI سے متعلق یہ اقدام نہ صرف تعلیم بلکہ امریکی معیشت، لیبر مارکیٹ، اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا باب کھولے گا  اور  مستقبل کی نسل کو جدید مہارتوں سے لیس بھی کریگا۔ مگر اس سب کے برعکس، پاکستان کی سرزمین پر تعلیم کے چراغ گل ہو رہے ہیں۔ جہاں دنیا AI کی روشنی سے اپنے مستقبل کے محلات تعمیر کر رہی ہے، وہیں ہماری نسل خوابِ رفتہ کے سائے میں کھڑی ہے، آنکھیں بند کیے ہوئے، ترقی کے سپنے دیکھ رہی ہے۔

پاکستان نے بھی 2018 میں “صدارتی اقدام برائے مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹنگ” (PIAIC) کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد AI، بلاک چین، اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں تعلیم و تحقیق کو فروغ دینا تھا ۔ تاہم، یہ منصوبہ اب تک محدود اثرات کے ساتھ جاری ہے۔  پاکستان کی وزارت آئی ٹی و ٹیلی کام نے 2023 میں ایک پالیسی تیار کی، جس کے تحت 2027 تک ایک ملین IT گریجویٹس کو AI اور متعلقہ ٹیکنالوجیز میں تربیت دینے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا ۔ لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ان اہداف تک پہنچنے کے لیے درکار وسائل، تربیت یافتہ اساتذہ، اور بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔

ہماری تعلیمی پالیسیاں AI کے نام پر چند کانفرنسوں، سیمیناروں، اور پرائیویٹ کورسز تک محدود ہیں۔ صوبائی حکومتیں اس میدان میں گویا خاموش تماشائی ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ جب بھارت اپنے اسکولوں میں AI کو لازمی مضمون بنا رہا ہے، ہمارے ہاں ابھی تک یہ بحث جاری ہے کہ “مغربی ایجنڈے” سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ AI صرف ایک ٹول نہیں، بلکہ ایک نئی تہذیب کی بنیاد ہے؟ جو قومیں اسے “اخلاقی خطرہ” قرار دے کر نظرانداز کرتی ہیں، وہ تاریخ کے دھارے میں بہہ جاتی ہیں۔

پاکستان کو اسوقت AI کے میدان میں کامیابی کے لیے تین بنیادی ستون، درکار ہیں:

1. “تعلیمی اصلاحات:” جہاں نصاب کی کتابیں AI کے فلسفے، اخلاقیات، اور ٹیکنالوجی کو یکجا کریں۔

2. “اساتذہ کی تربیت:” جو نہ صرف کوڈ سکھائیں، بلکہ طلباء کو یہ سوچنے پر مجبور کریں کہ “AI انسانیت کے لیے کیسے ایک روشن چراغ بن سکتا ہے؟”

3. “ریاستی وژن:” جہاں حکومت صرف پالیسیاں نہ بنائے، بلکہ AI کو قومی شناخت کا حصہ بنائے۔

مگر افسوس! ہم ان تینوں محاذوں پر ناکام ہیں۔ ہمارے اسکولوں میں کمپیوٹرز کی کمی ہے، اساتذہ کی تربیت ایک خواب ہے، اور ریاستی سطح پر AI کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ جبکہ بھارت جیسے ممالک میں Infosys اور TCS جیسی کمپنیاں نوجوانوں کو AI کی تربیت دے کر انہیں عالمی سطح کا کھلاڑی بنا رہی ہیں، ہمارے ہاں AI کا نام صرف چند یونیورسٹیوں کے کورسز تک محدود ہے۔

ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر نے دنیا کے سامنے آئینہ رکھ دیا ہےکہ آج کی دنیا میں طاقت ایٹم بم کے پاس نہیں، بلکہ مصنوعی ذہانت (AI) کے پاس ہے۔ وہ ایٹم بم جسے قومیں دہائیوں سے اپنی حفاظت کی ضمانت سمجھتی رہیں

آج ایک کوڈ، ایک سائبر حملے سے مفلوج کیا جا سکتا ہے۔اب جنگیں بارود سے نہیں، بٹس اور بائنری سے لڑی جائیں گی۔

جو قومیں AI کی حقیقت کو پہچان چکی ہیں، وہ اپنے نوجوانوں کو صرف صارف نہیں خالق بنانا چاہتی ہیں

نئے نظاموں کے خالق، نئی دنیاؤں کے معمار۔

اور جو قومیں اس انقلاب سے غافل ہیں، وہ مستقبل میں محض تماشائی بن کر رہ جائیں گیں جن کے ہاتھ میں تاریخ کا قلم نہیں، صرف ماضی کی گرد ہوگی۔ پاکستان اگر اب بھی نہ جاگا، تو ہماری آنے والی نسلیں ڈیجیٹل غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوں گی۔ ہماری معیشت، ہمارا دفاع، اور ہماری خودمختاری سب خطرے میں پڑ جائیں گی۔

کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے کل کو بھارت یا چین کے بنائے ہوئے AI ٹولز استعمال کریں؟ کیا ہم یہ برداشت کر سکیں گے کہ ہماری نسل صرف “ڈیٹا کا کچرا” جمع کرنے والی مزدور بن کر رہ جائے؟ اگر نہیں، تو پھر ہمیں ایک “علمی بغاوت” کی ضرورت ہے۔ نہ صرف تعلیمی اصلاحات، بلکہ ایک ایسا انقلاب جو نصاب کو توڑ کر نئے نظام کی تعمیر کرے۔ جہاں ہر طالب علم کے ہاتھ میں کوڈ کی طاقت ہو، جہاں اساتذہ فلسفیانہ سوچ کے ساتھ AI کو پرکھیں، اور جہاں ریاست اسے قومی عزت کا مسئلہ سمجھے۔

آج جب امریکہ اگلے سو سالوں کے لیے AI کی بنیاد رکھ رہا ہے، پاکستان کو بھی اپنی نوجوان نسل کے لیے فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم تاریخ کے تماشائی بننا چاہتے ہیں یا اس کے خالق؟اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم خوابِ غفلت کو چیر کر حقیقت کی دنیا میں داخل ہوں۔ AI صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں، یہ ہماری بقا کا سوال ہے۔

امریکہ کا دیا ہوا آئینہ ہمیں صاف دکھا رہا ہے کہ اب علم محض طاقت نہیں، بلکہ مستقبل ہے اور وہ مستقبل اُنہی قوموں کا ہوگا جو کوڈ کی زنجیروں کو علم کے سورج سے جوڑنے کا ہنر جانتی ہیں۔ یہ وقت کا دریا ہمیں ایک چوراہے پر لا کھڑا کر چکا ہے یا تو ہم اس روشنی سے راستہ کشید کریں، نئی نسل کو فکر و فن کی مشعل تھمائیں،

یا پھر تاریکی کے اس سیلاب میں خود کو، اپنی زبان کو، اپنی شناخت کو ریت کے ایک بےنام ذرے کی طرح گم کر دیں  جہاں نہ روشنی ہوگی، نہ آواز، اور نہ ہی پہچان


اپنا تبصرہ لکھیں