پریڈ کی گونج اور ایک خاموش پیغام: کل جب واشنگٹن میں ٹینک گزریں گے اور پاکستان کا پرچم فضا میں لہرائے گا


پریڈ کی گونج اور ایک خاموش پیغام: کل جب واشنگٹن میں ٹینک گزریں گے اور پاکستان کا پرچم فضا میں لہرائے گا

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

یہ محض ایک فوجی پریڈ کی روداد نہیں، یہ ایک سوچ کا مظہر ہے، ایک خواب کی تعبیر ہے، اور ایک بیانیے کی بازگشت ہے۔ یہ 45 ملین ڈالر کے اخراجات یا سینکڑوں ٹینکوں کی دھمک کی کہانی نہیں یہ ایک ایسی خاموشی کا تاثر ہے جو بعض اوقات نعروں سے زیادہ بلند ہوتی ہے۔ یہ ایک لمحہ ہے ‎جہاں طاقت، وقار اور سفارت ایک ہی اسٹیج پر آ کر، ایک نئے عالمی منظرنامے کی پرچھائیوں کو جنم دیتے ہیں۔

14 جون 2025 یہ تاریخ صرف کیلنڈر پر ایک دن نہیں بلکہ واشنگٹن ڈی سی کی سڑکوں پر ایک ایسی گونج بننے جا رہی ہے، جسے وقت شاید بھول جائے، مگر تاریخ اسے اپنے صفحات میں ہمیشہ سنبھال کر رکھے گی۔ جب امریکی دارالحکومت کی فضا بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں، M4A1 ٹینکوں، اور وردی میں ملبوس ہزاروں فوجیوں کے قدموں کی دھمک سے گونجے گی، تو اس شور میں ایک غیر متوقع مگر باوقار آواز بھی شامل ہو گی پاکستان کی موجودگی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو 2017 میں فرانس کی Bastille Day پریڈ میں کھڑے ہو کر اس منظر سے متاثر ہوئے تھے، وہ کل اس خواب کو اپنی 79ویں سالگرہ کے موقع پر عملی شکل دے رہے ہیں۔ واشنگٹن کی “Constitution Avenue” پر امریکی فوج کی 250 سالہ تاریخ کا جشن مناتے ہوئے جب M4A1 Sherman ٹینک زمین پر گرجیں گے اور B-25 Mitchell بمبار طیارے آسمان کو چیرتے ہوئے گزریں گے، تو اسی وقت ایک اور حقیقت خاموشی سے رقم ہو رہی ہو گی پاکستانی سپہ سالار فیلڈ مارشل عاصم منیر کی شرکت۔ یہ شرکت نہ نعرے کی محتاج ہے، نہ اسلحے کے شور کی۔ یہ ایک خاموش لیکن انتہائی بامعنی موجودگی ہے۔ جب پوری دنیا کی نظریں اس پریڈ پر ہوں گی، تو پاکستان کی موجودگی نہ صرف سفارتی نقطۂ نظر سے بلکہ عسکری توازن کے پس منظر میں بھی نمایاں ہو گی۔ بھارت کے میڈیا میں شور، پاکستان کے عوام میں فخر، اور عالمی تجزیہ نگاروں میں سوالات یہ سب مل کر اس خاموش شرکت کو بلند آواز میں تبدیل کررہے ہیں۔

یہ دعوت ایک رسمی پروٹوکول سے بڑھ کر ایک علامتی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ دنیا کو یہ باور کرانے کا ایک غیر اعلانیہ مگر واضح انداز ہے کہ پاکستان محض خطے کا ایک تماشائی نہیں، بلکہ عالمی اسٹیج کا اہم اور باوقار شریک ہے۔ یہ ایک شراکت داری کا پیغام ہے جو کہتا ہے کہ پاکستان کو نظرانداز نہ کیا جائے وہ دیکھنے والا ہی نہیں، سننے والا بھی ہے، اور اب بولنے والا بھی۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر کی اس پریڈ میں شرکت کے موقع پر محب وطن پاکستانیوں کی ایک متحرک ٹیم نے یہاں امریکہ کے مختلف شہروں میں خیرمقدمی تقریبات اور سائبر ٹرک کارواں ترتیب دیے ہیں۔ اسٹینڈ وتھ پاکستان تنظیم کے بینر تلے ڈیلس میں  جبکہ اور مختلف تنظیموں کے جانب سے واشنگٹن میں  میں جو سائبر ٹرک گشت کریں گے، وہ نہ صرف بصری جمالیات کا مظہر ہوں گے بلکہ وہ ایک زندہ پیغام بھی دیں گے۔ ان ٹرکوں پر فیلڈ مارشل کو بھارت کے خلاف عسکری کامیابی پر مبارکبادی پیغامات آویزاں ہوں گے، اور ان میں بجنے والے ملی نغمے پاکستانی جذبات کی نمائندگی کریں گے۔

ڈیلس، فورتھ ورتھ، اور قرب و جوار کے شہروں میں یہ کارواں مرکزی شاہراہوں سے گزرتا ہوا، ڈیلس ڈاؤن ٹاؤن اور کینڈی میموریل میں اپنی موجودگی کا اعلان کرے گا۔ ان تقریبات کے انتظام میں پاکستانی کمیونٹی رہنماؤں سید فیاض حسن، امیر مکھانی، سہیل پیرزادہ، غزالہ حبیب سمیت دیگر کئی متحرک محب وطن پاکستانی کارکنان پیش پیش ہیں، جنہوں نے اس دن کو ایک فوجی پریڈ کے ساتھ ساتھ ایک قومی فخر، اتحاد، اور اعتماد کے اظہار میں تبدیل کر دیا ہے۔

ان خوشی کے لمحات کے بیچ، کچھ اختلافی سر بھی سنائی دیے۔ اطلاعات آئیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے کچھ کارکنان امریکہ میں احتجاج کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں۔ تاہم، پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے واضح بیان دیا کہ امریکہ میں کسی احتجاج کی کال جاری نہیں کی گئی۔ یہ وضاحت اس جانب اشارہ ہے کہ شاید اس بار نفرت کے بیجوں کی جگہ محبت کی کونپلیں اگ رہی ہیں۔ یہ اتفاق کا منظر ہے جہاں قومی جذبہ اختلاف سے بلند ہو جاتا ہے۔

اس سارے منظرنامے میں، ایک سوال بار بار ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے: کیا ہم صرف تماشائی ہیں؟ یا تاریخ کے اس لمحے میں ہمارا کردار متعین ہونے کو ہے؟ کیا ٹینکوں کی گونج امن کا اعلان ہے، یا یہ ایک نیا منظرنامہ تشکیل دے رہی ہے؟ کیا عالمی پریڈ میں مدعو ہونا، مستقبل کی صف بندی میں ہماری جگہ کا اعلان ہے؟

فیلڈ مارشل کی خاموش موجودگی، پاکستان کے لیے ایک آئینہ ہے۔ اس میں سفارتکاری کا عکس ہے، عسکری وقار کی جھلک ہے، اور اس نظریے کی روشنی ہے جسے دنیا نے عرصے تک نظرانداز کیا۔ مگر اب، شاید پہلی بار، یہ خاموشی اتنی بلند ہو گئی ہے کہ پوری دنیا سننے پر مجبور ہو گئی ہے۔

یہ پریڈ گزر جائے گی، شور ماند پڑ جائے گا، تصاویر محفوظ ہو جائیں گی۔ لیکن جو تاثر ابھرا ہے، وہ وقتی نہیں یہ ایک نئے بیانیے کی تمہید ہے۔ وہ بیانیہ جس میں پاکستان کی شناخت محض سرحدوں تک محدود نہیں، بلکہ عالمی دھارے میں ایک فعال، بامعنی اور باوقار مقام ہے۔

کیونکہ نقش ہمیشہ شور سے نہیں، بصیرت سے بنتے ہیں اور کل واشنگٹن میں، ایک ایسا نقش اُبھرے گا، جو وقت سے نہیں، تاریخ سے بات کریگا۔


اپنا تبصرہ لکھیں